Chitral Times

میں اور الواعظ…….ایک مکالماتی سلسلہ…… (قسط پنجم)……..کریمی

Posted on

آج میرے اندر کے واعظ کو کیا ہوا تھا کہ سر سرہانے پہ رکھتے ہی مجھ سے مخاطب ہوا۔ آغازِ کلام ہی سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر سات کی تلاوت سے کی:

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ

’’اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔‘‘

اختتامِ تلاوتِ کلام پر میں نے بے اختیار جزاک اللہ کہا۔ اور اس بے وقت تلاوت کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’بہت جلد بھول جایا کرتے ہو میاں!‘‘ میں نے کہا ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ فرمانے لگے ’’آج سمجھنا پڑے گا آپ تو بہت پریشان ہوتے ہو جو کوئی سوال کرتا ہے کہ اللہ نے ہمیں دیا کیا ہے کہ ہم شکر ادا کریں۔‘‘

یقیناً میرے اندر کے واعظ نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ یہی تو ہوتا ہے ہمارے ساتھ کہ وعظ اور لیکچر کے بعد اکثریت یہ سوال کرتی ہے کہ میرے پاس یہ نہیں وہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دوسرے کے پاس سب کچھ ہے۔ حالانکہ جس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اس کے بھی کم و بیش یہ سوالات ہوتے ہیں کہ میرے پاس کیا ہے۔ نعوذ باللہ! اللہ پاک ہماری دعائیں قبول نہیں کرتے۔

آج میرے اندر کے واعظ نے غالباً میرے دل کی بات کی تھی۔ تلاوت کے مولا علی علیہ السلام کے اس قول سے گفتگو کا آغاز کیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

’’خواہشیں تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں جبکہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہوتی ہیں۔‘‘

میرے اندر کے واعظ نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’انسان شکر کریں تو مطئین زندگی گزار سکتا ہے۔‘‘ پھر ایک واقعہ سنانے لگے۔

بادشاہِ وقت نے اپنے وزیر خاص سے پوچھا ’’یہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ کیسے خوش باش پھرتے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس کمی کسی چیز کی نہیں۔‘‘

وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت! اپنے کسی خادم پر قانون نمبر ننانوے کا استعمال کر کے دیکھیئے۔‘‘
بادشاہ نے پوچھا ’’اچھا، یہ قانون نمبر ننانوے کیا ہوتا ہے؟‘‘

وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت، ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر، صراحی پر لکھیئے اس میں تمہارے لیے سو درہم ہدیہ ہے، رات کو کسی خادم کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ کر دروازہ کھٹکھٹا کر اِدھر اُدھر چھپ جائیے اور تماشہ دیکھ لیجیئے۔‘‘
بادشاہ نے، جیسے وزیر نے سمجھایا تھا، ویسے کیا، صراحی رکھنے والے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور چھپ کر تماشہ دیکھنا شروع کر دیا۔
اندر سے خادم نکلا، صراحی اٹھائی اور گھر چلا گیا۔ درہم گنے تو ننانوے نکلے، جبکہ صراحی پر لکھا سو درہم تھا۔ سوچا ’’یقیناً ایک درہم کہیں باہر گرا پڑا ہوگا۔‘‘

خادم اور اس کے سارے گھر والے باہر نکلے اور درہم کی تلاش شروع کر دی۔ ان کی ساری رات اسی تلاش میں گزر گئی۔ خادم کا غصہ دیدنی تھا، کچھ رات صبر اور باقی کی رات بک بک اور جھک جھک میں گزری۔ خادم نے اپنے بیوی بچوں کو سست بھی کہا کیونکہ وہ درہم تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
دوسرے دن یہ ملازم محل میں کام کرنے کے لیے گیا تو اس کا مزاج مکدر، آنکھیں نیند پوری نہ ہونے ی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی، کام سے جھنجھلاہٹ، شکل پر افسردگی عیاں تھی۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ ننانوے کا قانون کیا ہوا کرتا ہے۔

میں نے بے اختیار کہا ’’پھر؟‘‘
میرے اندر کے واعظ ڈانٹنے کے انداز میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ کہنے لگے۔ ’’لوگ ان ننانوے نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو الله تبارک و تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہوتی ہیں۔ اور ساری زندگی اس ایک نعمت کے حصول میں سر گرداں رہ کر گزار دیتے ہیں جو انہیں نہیں ملی ہوتی۔ اور یہ والی رہ گئی نعمت بھی الله کی کسی حکمت کی وجہ سے رُکی ہوئی ہوتی ہے جسے عطا کر دینا الله کے لیے بڑا کام نہیں ہوا کرتا۔ لوگ اپنی اسی ایک مفقود نعمت کے لیے سرگرداں رہ کر اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں کی لذتوں سے محروم مزاجوں کو مکدر کر کے جیتے ہیں۔‘‘
میں سبحان اللہ کہنے کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا۔ میرے اندر کے واعظ کی آخری بات پلے باندھنے کی تھی۔ کہنے لگے:
’’اپنی ننانوے مل چکی نعمتوں پر الله تبارک و تعالٰی کا احسان مانیئے اور ان سے مستفید ہو کر شکرگزار بندے بن کر رہیئے تو کبھی شکوہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘

اس مکالمے کے بعد بس اتنی سی گزارش ہے کہ ربِ کائنات کا شکریہ ادا کیجئیے اور ان کی رحمتوں کے لیے دامن پھیلائے کہ انہوں نے خود تو اپنے پاک کتاب میں فرمایا ہے کہ تم شکر گزاری کروگے تو اور زیادہ دوں گا۔

یکے از تصنیفاتِ کریمی

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
15623

میں اور الواعظ……..ایک مکالماتی سلسلہ………کریمی

میں اور الواعظ……..ایک مکالماتی سلسلہ….( قسط چہارم)…….کریمی

میرا اکثر وقت نوجوانوں اور بزرگ خواتین و حضرات کے مجمع میں گزرتا ہے۔ میرے لیکچرز اور وعظ کے بعد اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں ’’سر! ہمارے ساتھ ہمیشہ برا ہوتا ہے ہم اچھا کرنے کی کوشش بھی کریں تو اچھائی سجھائی نہیں دیتی۔‘‘ یا پوچھتے ہیں ’’سر! ہماری دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔‘‘ میں ان سے کہتا ہوں’’ہر چیز میں مصلحت ہوتی ہے۔ آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ آپ سے زیادہ رب آپ کے بارے میں سوچتا ہے۔‘‘

پھر جب تھکے ہارے گھر پہنچتا ہوں۔ تو یہی سولات میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں کہ واقعی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ جب کچھ سمجھ نہیں آتی تو اپنے اندر کے واعظ سے پوچھتا ہوں۔ آج جب یہی سولات میں اپنے اندر کے واعظ سے پوچھا تو انہوں نے گہری سانسیں لیں اور کہنے لگے:

’’ریس میں جیتنے والے گھوڑے کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ جیت حقیقت میں کیا ہے؟ وہ تو اپنے مالک سے دی گئی تکلیف کی وجہ سے دوڑتا ہے، تو زندگی میں جب آپ کو تکلیف ملے اور کوئی وجہ سمجھ نا آئے تو سمجھ جائیے گا کہ مالک (اللہ) آپ کو جیتانا چاہتا ہے۔‘‘

میں صرف اتنا کہہ سکا ’’سبحان اللہ!‘‘ واعظ نے کہا ’’ایک اور واقعہ سنیں۔ ممکن ہے آپ کے سوالات کا جواب اس میں ہو۔‘‘ میں فوراً کہا ’’فرمائیے۔‘‘ میرے اندر کا واعظ اب ایک داستان گو کا روپ دھار چکے تھے۔ ایک واقعہ شئیر کرنے لگے جو کچھ یوں تھا۔
جناب دائود طائی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ ان کے شہر ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ۔ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﻞ ﺟﻤﻊ ﭘﻮﻧﺠﯽ ﺑﺲ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﺍﻭﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﻻﺋﯽ، ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺻﻮﻝ ﭘﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭ ﺩﺭﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﺁﺋﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺑﺴﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ لے کر ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﯽ، ﺍﻭﻥ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻋﻮﺭﺕ کے لیے ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﻮﮞ ﻟُﭧ ﺟﺎﻧﺎ ﺳﻮﮨﺎﻥ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﮨﻮﻟﻨﺎﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﻭ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔

ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺳﯿﺪﮬﺎ جناب دائود ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ “ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟ “جناب دائود طائی ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﺷﺨﺎﺹ ﮐﻮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ “ﺣﻀﺮﺕ ﮨﻢ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻮﺕ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮔﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ، ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮ ﮨﯽﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﻻ ﻻ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎﯾﺎ، ﮐﺸﺘﯽ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ کے لیے ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ لیے ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﺤﻘﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﺠﯿﺌﮯ۔ ”

دائود طائی رحمتہ اللہ علیہ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ لے کر ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﻧﺪﺭ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ “ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟ ”

یہاں پہنچ کر بے اختیار میرے لبوں پر ایک دفعہ پھر سبحان اللہ آیا۔ میرے اندر کے واعظ نے مجھے ٹوکا اور کہا “ہم کتنے ناشکر ہیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر رب سے شکوہ کرتے ہیں۔ اور وہ بھی اس رب سے جس نے اپنی کتاب پاک میں فرمایا ہے کہ “ﺑﮯﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﺘﺮ ﻣﺎﺋﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﺮﮮ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ۔ ”

یکے از تصنیفاتِ کریمی

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
15524