Chitral Times

مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کا کارنامہ ………..محمد شریف شکیب

Posted on

پاک فوج نے آپریشن ردالفساد کے سلسلے میں پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب مکمل کرلی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو ملانے والی ایک ہزار403کلو میٹر کی سرحد پر یہ باڑ دس سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر لگائی گئی ہے۔ پاک افغان سرحد پر مجموعی طور پر ایک ہزار چار سو قلعے، چیک پوسٹیں اور بینکرز قائم کئے گئے ہیں۔ سرحد پر طویل فاصلے تک کوریج کرنے والے سی سی ٹی وی کیمرے ، سولر لائٹس اور موشن ڈیٹکشن ڈیوائسز بھی نصب کئے گئے ہیں تاکہ غیر معروف راستوں سے سرحد پار کرنے والے شدت پسندوں کی کڑی نگرانی کی جاسکے۔ ان چیک پوسٹوں پر گذشتہ چند ماہ کے دوران بغیر سفری دستاویزات کے سفر کرنے والے تقریبا دو ہزار افغانیوں اور چھ سو سے زیادہ پاکستانیوں کو واپس کردیا گیا۔ پاک فوج نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بچوں کو تعلیم دینے کا بھی بندوبست کیا ہے۔ ان بچوں کو خصوصی ریڈیو فریکونسی کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ پاک افغان سرحد طورخم ، نوا پاس ، تیراہ اور انگوراڈہ سے روزانہ دس سے بارہ ہزار افرادپاکستان اور افغانستان آتے جاتے ہیں جبکہ پاک افغان ٹریڈ سمیت بارہ سو گاڑیاں سامان لے کر سرحد عبور کرتی ہیں۔ پاک فوج کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائے جانے کے بعد سرحد پار سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے ۔امن بحال ہونے کے بعد نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں بھی معاشرتی زندگی معمول پر آنے کے ساتھ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملنے لگا ہے۔ طور خم بارڈر پر پاکستان گیٹ کی تنصیب اور چودہ سو کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگاکر پاک فوج نے سرحد کے متنازعہ ہونے کی تمام افواہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ اور باڑ کے آر پار علاقے کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے طور پر پوری عالمی برادری نے تسلیم کرلیا ہے ۔جو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان کی اہم کامیابی ہے۔ افغانستان گذشتہ کئی عشروں سے عالمی طاقتوں کی طرف سے زور آزمائی کا میدان بنا رہا۔ جس کے براہ راست منفی اثرات پورے خطے بالخصوص پاکستان پر پڑتے رہے ہیں ۔1987میں سوویت یونین کی طرف سے افغانستان میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں چالیس لاکھ سے زیادہ افغان شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں آبسے۔ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے افغان مہاجرین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہجرت کرنے والے افغان ہمارے مسلمان بھائی ہیں ہم انصار مدینہ کی یاد تازہ کریں گے۔ آدھی روٹی خود کھائیں گے اور آدھی اپنے مہاجر بھائیوں کو کھلائیں گے‘‘مہاجرین کے ساتھ ہیروئن، کلاشنکوف اور دہشت گردی کے تحفے بھی ہمیں جہیز میں مل گئے۔اس خطے کے مسلمانوں پر افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کا بھوت سوار تھا۔ امریکہ اور برطانیہ بھی سوویت فوج کے خلاف مجاہدین کی بھرتی اور انہیں کیل کانٹے سے لیس کرنے میں ہر ممکن تعاون کر رہے تھے۔ اس وقت اسامہ بن لادن امریکہ کے لئے نجات دہندہ اور مجاہد اعظم تھا۔ جب سوویت فوج کو افغانستان میں شکست ہوئی اورفوجی انخلاء کے ساتھ معاشی بحران کی وجہ سے سوویت یونین سات ریاستوں میں بٹ گیا تو امریکہ کا مشن بھی مکمل ہوگیا۔ اوروہ افغانیوں سے ایسا لاتعلق ہوگیا۔ جیسے انہیں جانتا ہی نہ ہو۔ طویل عرصے تک افغانستان میں خانہ جنگی رہی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اور وہاں اپنی اسلامی حکومت قائم کردی۔ افغانستان کو خالی دیکھ کر امریکہ کا جی للچانے لگا اوراس نے نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر افغانستان پر یلغار کردی۔ مسلسل جنگ و جدال کی وجہ سے افغان مہاجرین یہاں پھنسے رہے۔ان کے لئے آنے والی بیرونی امداد پر ہمارے حکمران بھی عیاشیاں کرتے رہے اور ان کے انخلاء کی تاریخیں بدلتے رہے۔ جن لوگوں کو ہم نے اپنے گھروں میں پناہ دی۔ انہیں اپنا آدھا نوالہ کھلایا۔ انہیں کاروبار کرنے کی کھلی چھٹی دیدی اور ان کی دونسلیں یہاں پل کر جوان ہوئیں۔ جب وہ واپس افغانستان گئے تو بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو گالیاں دینے لگے۔ افغانستان کے سرحدی علاقے دہشت گردوں کی اماجگاہیں بن گئیں اور سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات نے ہمارے امن، معاشرے اور معیشت کو تہہ و بالا کردیا۔ سرحد پار سے دہشت گردی کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ پوری سرحد کو باڑ لگاکر بند کردیا جائے۔ جس کی افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ ہمارے ہاں بھی بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت کی جارہی تھی۔ پاک فوج نے ان تمام مخالفتوں کے باوجود پاکستان کی مغربی سرحدوں کو باڑ لگاکر محفوظ بنادیا ہے۔ جس کے مثبت اثرات فوری طور پر رونما ہونا شروع ہوچکے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
17388