Chitral Times

مقروض ملک کی مست بیوروکریسی – محکم الدین ایونی

Posted on

مقروض ملک کی مست بیوروکریسی – محکم الدین ایونی

پاکستان دنیا کا عجیب اور واحد ملک ہے ۔ جس میں ریاست کےنوکر (بیوروکریسی ) عیش و عشرت اور مستی کی زندگی بسر کر تےہیں ۔ اور ریاست کے مالک اور وارث بنیادی انسانی ضرورتوں کیلئے ترس رہے ہیں ۔ بجٹ میں بیوروکریسی کی تنخواہوں میں اضافے کو گویا تمام عوام کیلئے ریلیف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور ریاست کے نوکروں کو مراعات دے کر حکومت یہ خیال کرتی ہے ۔ کہ انہوں نے پورے عوام کو مراعات فراہم کردی ہیں۔ حکومت ریاست کے اس بے زبان وارث سے یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتی ۔ کہ تم کس حال میں ہو ۔ زندہ بھی ہو کہ مر چکے ہو ۔ تمھارے بھی کوئی مطالبات یا مسائل ہیں کہ نہیں ہیں ? اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے۔ تو بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے نہ اس ملک کے وفادار ہیں اور نہ عوام کےساتھ مخلص ہیں ۔ حکومتوں اور سیاستدانوں کی غلطیاں اور کرپشن اپنی جگہ قابل مذمت و قابل گرفت ہیں ۔ لیکن ریاست کے نوکروں کی کرپشن اور وسائل کا غلط استعمال ان سے زیادہ سنگین جرائم ہیں ۔ لیکن مجال ہے ۔ کہ کوئی ان کے خلاف بات کرے۔

 

آج بھی اس تباہ حال ملک پاکستان کے وسائل کا سب سے بڑا حصہ ان ہی پر خرچ ہوتا ہے ۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت سعودی عرب ، چائنا و دیگر ممالک سے جو بے حساب قرض لئے گئےہیں ۔ وہ حکومتی اداروں پر خرچ ہو چکے ہیں ۔ جن کی واپسی کیلئےبھی ہرلمحے عوام کاخون نچوڑا جا رہا ہے ۔ ملک کھنگال ہو چکاہے۔ لیکن یہ نوکر لوگ اپنے مراعات اور عیاشیوں میں زرا برابر کمی قبول کرنے کیلیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بجٹ سےپہلے حکومت کو بلیک میل کرکے اپنےمطالبات منوا نے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ جبکہ اس کا خمیازہ غیر ملازم اور عام عوام کو بھگتنا پڑتاہے ۔ کیا اب بھی ایسا وقت نہیں آیا؟کہ ریاست کے وارث عام اور غیر ملازم لوگ بھی اپنی ایک اتحاد یعنی (یونین) بنائیں۔ اورملک گیر سطح پر خود پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے ہو جائیں ۔ اور حکومت کو یہ بات سمجھانےکی کوشش کریں ۔ کہ صرف ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے سے سب کے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس ملک میں اسی فیصد آبادی ایسے لوگوں کی ہے ۔ جو سرکار سے کچھ نہیں لیتے ۔بلکہ اپنا سب کچھ سرکار کو دے دیتے ہیں ۔ اس لئے ان پر رحم کیا جائے ۔ اور ان کی بھی سنی جائے ۔ اور ان کو بھی کچھ دیاجائے۔

اس ملک کاسب سے بڑا مسئلہ سرکاری وسائل کا ضیاع ہے۔ جس نے ملک کو اس نہج پر پہنچادیا ہے ۔ کہ اب یہ مالی طور پر کھنگال اور ناقابل بھروسہ ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے ۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں ۔کہ دفاتر میں غیر ضروری گاڑیوں کا استعمال ، بجلی اور ٹیلیفون کا استعمال ، سرکاری سٹیشنری اور ان گنت سرکاری چیزیں ذاتی مفاد میں مفت کا مال سمجھ کراستعمال کئے جاتےہیں ۔ جبکہ ان کیلئے مالی وسائل مہیا کرنے والے ہم عوام ہیں۔جو اشیاءخوردو نوش سے لے کر گاڑیوں کے فیول تک اور سوئی سےلے کرہوائی جہاز تک سب پر بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ہم ٹیکس دیے بغیر ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتار سکتے۔ تو آخراس حوالے سے پوچھنا بھی تو ہمارا حق بنتا ہے ۔ ہم اپنے ملک کے خزانے کو اپنے سامنے ضائع ہوتا ہوا دیکھیں۔ اور خاموش رہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ اپنے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں دے کر خود پر حکمران بنانے کا طریقہ بھی ختم ہونا چاہیئے ۔ بیورو کریسی ہمارا محتاج ہے ۔ کہ ہماری وجہ سے ان کا چولہاجلتا ہے ۔ اور یہ بنگلے ، گاڑیاں ، فیول ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے ان کو مہیا کئے جاتےہیں۔اس لئے والدین کے بعد جن کی عزت و ادب کرنا لازم ہے۔ وہ عوام ہیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
63222