Chitral Times

حق حقدار تک………….. محمد شریف شکیب

Posted on

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے ملک بھر میں ”حق حقدار تک“ کے نام سے ایک مہم شروع کررکھی ہے۔ اس حوالے سے وزارت اطلاعات و نشریات اور ویمن چیمبر آف کامرس خیبر پختونخواکے اشتراک سے پشاور میں ایک آگاہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔تقریب کے شرکاء کو بتایا گیا کہ پاکستانی قوم سالانہ 554ارب روپے زکواۃ، عطیات، صدقات اور خیرات کی صورت میں دیتی ہے۔عطیات دینے والے 26فیصد لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتاکہ ان کی دی ہوئی رقم کہاں جاتی ہے اور کس مصرف میں کام آتی ہے۔پاکستانی بحیثیت قوم دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دیتے ہی۔ ایدھی فاونڈیشن، شوکت خانم کینسر ہسپتال، پاکستان بیت المال اور اس جیسے سینکڑوں فلاحی ادارے عوام کے عطیات اور چندوں سے چل رہے ہیں۔مساجد، مدارس، یتیم خانوں، بزرگ شہریوں کے لئے پناہ گاہوں اوربیواوں و بے سہارا خواتین کے لئے قائم دارالامان کے لئے چندہ بکس چوراہوں، دکانوں اور دیواروں پر لگے نظر آتے ہیں اور لوگ حسب توفیق اس میں چندہ ڈالتے ہیں مختلف اداروں نے شکایات اور تجاویز کے لئے جو بکس عوامی مقامات پر لٹکا رکھے ہیں لوگ ان میں بھی چندے ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔اپنے مال میں سے بے سہارا، نادارلوگوں، یتیموں اور معذوروں کے لئے خیرات، عطیات اور صدقات دینا ہم بحیثیت مسلمان اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر اوردل کھول کرچندہ دیتے ہیں کیونکہ دین اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور صدقہ ایسی رازداری سے دینا چاہئے کہ ایک ہاتھ سے دیدو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے“ہماری قوم کی اس فیاضی اور سخاوت کا ماضی میں ناجائز فائدہ بھی اٹھایاجاتا رہا۔ ہم نے جو چندہ دیا اس سے گولیاں خرید کر ہم پر ہی برسائی گئیں۔اور ہمارے ہی بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔جس کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ بین الاقوامی فنانشل ٹاسک فورس نے انہی الزامات کی بنیاد پر پاکستان کو واچ لسٹ میں رکھا ہے۔ خطرہ تھا کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر بلیک لسٹ نہ ہوجائے۔ پاکستان کوبلیک لسٹ ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔اور بڑی مشکل سے ہم نے بین الاقوامی برادری کو گرے لسٹ میں رکھنے پر قائل کرلیا ہے۔ حق دار تک اس کا حق پہنچانے کے لئے حکومت، سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ عطیات دینے اور جمع کرنے والوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم قربانی کی کھالیں گھروں میں نہیں رکھتے۔قربانی کے جانور کی چمڑی ادھیڑتے وقت جو بھی کھال مانگنے آئے۔ اسے بلاحیل و حجت تھما دیتے ہیں۔ان کھالوں کی مجموعی قیمت کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں ہوتی ہے۔ ہماری زرا سی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے یہ خطیر رقم حق دار کو ملنے کے بجائے ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو اسے تخریبی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگرچہ عطیہ دیتے وقت ہمیں اس کے استعمال کا علم نہیں ہوتا اس لئے نادانی میں ہم تخریبی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی مالی مدد کررہے ہوتے ہیں۔ دین اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ اگر آپ کے پڑوسی اور قریبی رشتے داربھوکے اورقرض دار ہوں تو آپ حج یا عمرے پر جانے کی بجائے ان کی مالی مدد کریں۔ہمارے خاندان، عزیز و اقارب اور محلے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کے کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارے سامنے روزانہ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر رزق تلاش کرتے، گھروں سے ٹین کے ڈبے، باسی روٹیوں کے ٹکڑے، پرانے کپڑے اور جوتے جمع کرتے پھیرتے ہیں۔فٹ پاتھوں پر سفید ریش، پٹھے پرانے کپڑوں میں ملبوس بزرگ شہری اور بچے پھل، مسواک، کنگھی،رومال،تسبیح اور دوسری چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے نظر آتے ہیں۔یہ لوگ بھیک مانگنے کے بجائے رزق حلال کمانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے بلاضرورت چیزیں خریدنا بھی صدقہ کے زمرے میں آتا ہے۔ہم اپنی انا کی تسکین، معاشرے میں اپنی بڑائی ظاہر کرنے اور خود کو متمول ثابت کرنے کے لئے اونچے ہوٹلوں میں دو ہزار کی چار پیالی چائے پیتے اور ویٹر کو پانچ سو روپے ٹپ دیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں لیکن سڑک کنارے ابلے ہوئے انڈے بیچنے والی خاتون، بزرگ اور بچے سے انڈے کی قیمت بارہ روپے سے کم کرکے دس روپے میں بیچنے کا تقاضا کرتے ہیں اگر ہم بارہ روپے کا تقاضا کرنے والے بچے کے ہاتھ میں پندرہ روپے تھما دیں تو وہ بھی خوش ہوگا اور اللہ تعالیٰ بھی ہم سے راضی ہوگا۔یہی تو ایک مسلمان کا مقصد حیات ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
32666