Chitral Times

توجہ طلب………. تحریر: مشاہدحسین منتظرؔ

Posted on

پھول خوشبو بکھیرتی ہے عطر نچھاور کرتی ہے سونگھنے والوں کو فرحت کا احساس مہیا کرتی ہے اور وہ بھی بلا کسی عوض بلا مقصد اور بلا تفریق یعنی کہ پھول جو خوشبو مالی کو فراہم کرتی ہے جو کہ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے وہی خوشبو اس شخص کو بھی فراہم کرتی ہے جو اس پھول کو اپنی ہتھیلیوں کی رگڑ سے مسل دیتا ہے ۔اگر ہم اپنا موازنہ پھول سے کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گ کہ ہمارا رویہ پھول سے قطعی طور پر الٹ ہے یعنی کہ جس شخص سے ہمیں کوئی مطلب ہو اس کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا، اپنی خودی، خودداری اور عزتِ نفس کو مجروح کرکے چند پیسوں کے عوض امراء کے درکاغلام بن کے رہنا اور جو شخص ہمارے لئے سودمند نہ ہو اس سے تعلقات ختم کرنا خواہ وہ رشتے میں ہمارا قریبی ہی کیوں نہ ہو، اخلاقیات سے بالاتر ہوکر مال و دولت کو اپنا معیار بنانا یعنی اس شخص کو فوقیت، عزت، وقار اور احترام بخشنا جس کے پاس مال و دولت پیسہ متاعِ زندگی، عہدہ ، ڈگری، گاڑی، بینک بیلینس اور بنگلہ ہو۔پھول کا خوشبو بکھیرناہمارے لئے ایک سبق ہے ایک بہترین مثال ہے ایک مشعل ہے اورز ندگی گزارنے کا قرینہ ہے۔اگر ہم پھول کے اس امر کو اپنی زندگی پر اطلاق کریں تو ہم ایک نہایت خوش و خرم زندگی گزار سکتے ہیں۔اگر ہم زندگی کو اس کے وقار کے عین مطابق گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں پھول بننا ہوگا۔جو گالی دے اس کو سلام کرنا ہوگا۔جو اینٹ پھینکے اس کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے پھول برسانے ہوں گے۔جس شخص سے ہمیں فائدہ ملے گا امکان نہ ہو اس کے ساتھ بھی ایسے تعلقات رکھنے ہوں گے جو ہم عہدے داروں اور امراء کے ساتھ رکھتے ہیں ایک غریب کو بھی وہ عزت و احترام دینا ہوگا جو ہم ایک امیر و اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کو دیتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں ہماری زندگی جنت کی ایک باغ بن جائے گی۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”بے شک اللہ تمہارے مالوں اور تمہارے صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال اور تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے”۔ آج کی پوری انسانیت کا خاص کر ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے اخلاقیات اور اعمال کو نہیں بلکہ عہدے اور مال و دولت کو برتری کا معیار بنایا ہوا ہے۔ماں باپ اپنی بچیوں کو سونے کے کان اور ڈگریوں کے کان سے بیاہتی ہیں مگر یہ نہیں دیکھے کہ وہ انسان ہے یا درندہ نتیجہ نکلتاہے طلاق۔
انسان کو اپنے اعمال و نیت اخلاق و معاشرت کو چار چاند لگانے چاہئے نہ کہ دولت کی حوس میں ان اقدار کو دریا برد کردے ورنہ گاڑیوں میں تو یورپ کے کتے بھی سفر کرتے ہیں ہم سے اچھا تو یورپ کے کتے بھی کھاتے ہیں یہی انسانیت و ہمدردی کے جذبات ہی ہمارے اور ان کے درمیان نشانِ امتیاز ہے۔نیز دولت ، حکومت اور بنگلے تو فرعون و نمرود کے پاس بھی تھے مگر ان کے دلوں پہ تاریکی تھی ان میں انسانیت نہیں تھی۔اگر دولت ہی اصل عزت و برتری کا سامان ہوتی تو موسیٰؑ ہارتا اور فرعون سرخرو ہوتا ، حسین ؑ ہارجاتے اور یزید جیت جاتا، نمرود جیت جاتا اور ابراہیم ؑ ناکام ہوتے مگر اصل عزت اور انسان کی قدرو قیمت تو تقویٰ اور اخلاق سے ہے اسی لئے یزید تخت و تاج پر بیٹھ کر بھی بازی ہار گیا ۔ مجھے اکثر مولانا طارق جمیل صاحب کی ایک بات یاد آتی ہے وہ اپنے بیان میں فرماتے ہیں: “غرور و تکبر کس بات کا ، جب تم چمکتی ہوئی BMWاور مرسڈیز گاڑی میں بیٹھتے ہو تو تم سمجھتے ہو لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں دراصل وہ آپ کو نہیں آپ کی گاڑی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ، تم گدھے پر سوار ہو کر آجاؤ پھر دیکھو تمہیں کون دیکھتا ہے”
طلب اپنی نہ بڑھنے دو ضروری رزق کی حد سے
بچائے گی قناعت تیری تجھ کو کفر کی زد سے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
15394