Chitral Times

ترش و شیرین…..کیا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں علماء کا راستہ روکا جا رہا ہے؟؟ ……..نثاراحمد

Posted on

محکمہ ء تعلیم چترال کی طرف سے حالیہ اپائنٹمنٹس کو لے کر فیس بک پر انگشت نمائی اور طعن و تشنیع کا سلسلہ ابھی تھما ہی تھا کہ عالمیہ کے لئے نمبرز مختص نہ کیے جانے والے ایشو پر وفاق المدارس کی طرف سے تازہ مذمتی بیان جاری ہونے کے بعد یہ مسئلہ ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا میں زیرِ بحث آ چکا ہے. پہلے تو ہمارے دوست بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ باقی ضلعوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے صرف چترال کے ہمارے ڈی ای او صاحب “علماء” کے راستے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں. لیکن اب وفاق المدارس کے لیڈروں کی طرف سے جاری کردہ اخباری بیان سے معاملہ صاف ہو گیا کہ یہ مسئلہ صوبائی لیول کا ہے، ڈسٹرکٹ لیول کا نہیں. وفاق کے اس بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اس مسئلے کو بنیاد بنا کر محکمہ ء تعلیم چترال کو مطعون کرنا انتہائی غلط تھا. خیر، یہ کوئی اچھنبے کی بات ہے اور نہ ہی اس پہ حیرت و استعجاب کی ضرورت ہے. یہ ہماری سادہ لوح چترالی روایت و ثقافت کا باقاعدہ حصہ چلا آ رہا ہے کہ ہم چترالی سپیکنگ آفیسر کو گھاس تک ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے جبکہ غیر چترالی افیسر کی جوتیاں تک سیدھی کرنے کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں. پھر ایسے میں موجودہ ایجوکیشن آفیسر کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی بہانہ ڈھونڈنا ناقابلِ فہم ہرگز نہیں ہے.
یہ حقیقت اپنی جگہ بجا بھی، اور تسلیم بھی کہ اگر کسی سرکاری ادارے کے اندر رات کی گُھپ تاریکی میں میرٹ کا گلا گُھونٹ کر اہل اور باصلاحیت افراد کو سائڈ پہ کرکے اپنوں پر عنایات کی بارش برسائی جا رہی ہو تو پھر ایسے موقع پر کلمہء حق بلند کرکے اُس جرم کی نشاندہی کرکے اُسے طشت ازبام کرنا نہ صرف کار ِثواب ہے بلکہ یہ ایک غیرت مند ضمیر و شعور کی بروقت صدا و پکار بھی ہے لیکن جہاں دن کی روشنی میں میرٹ کی بنیاد پر سب کچھ ہو رہا ہو وہاں بے بنیاد پروپیگنڈے کے زریعے کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا کسی بھی زاوئیے سے ٹھیک قرار نہیں دیا جا سکتا .
عالمیہ کی سند، جسے مارکس سے محروم رکھنے کا شُہرہ آج کل ہے، گزشتہ کئی سالوں سے پروفیشنل ہی چلی آ رہی تھی،بلکہ اب تک ہونی والی ساری بھرتیوں کی بنیاد میں عالمیہ بطورِ پروفشنل موجود ہے لیکن تب چونکہ پروفشنل کے لئے مختص نمبر “عالمیہ” کو مل رہے تھے سو کسی کی طرف سے کبھی یہ سوال نہیں اُٹھا کہ عالمیہ کو پروفیشنل کی فہرست سے نکال کر اکیڈمک کی فہرست میں کیوں نہیں ڈالا جا رہا. اب جب اِس بار پروفشنل ڈگریوں کےلئے مارکس نہیں رکھے گئے تو سوالات پہ سوالات ہو رہے ہیں کہ عالمیہ کو مارکس کیوں نہیں دییے جا رہے؟ عالمیہ کو اکیڈمک قرار کیوں نہیں دیا جا رہا ہے؟.. بالکل سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی بھی پروفشنل ڈگری کےلئے مارکس مختص ہی نہیں ہیں تو پھر عالمیہ کے لئے کس خوشی میں ہوں گے؟ بلکہ پروفشنل ہونے کی وجہ سے صرف “عالمیہ” ہی مارکس سے محروم نہیں ہے بلکہ ایم اے اسلامیات کو اسلامیات کے لئے پروفیشنل قرار دینے کی وجہ سے ایم اے اسلامیات بھی مارکس سے محروم ہے. اس لحاظ سے حساب برابر ہے.
البتہ اب نئی صورتحال کے مطابق عالمیہ کو مارکس دلوانے کے لئے یہ مطالبہ غیر معقول اور بلا جواز نہیں ہے کہ اِسے پروفشنل کی لسٹ سے نکال کر ہمیشہ کے لئے اکیڈمک کے خانے میں ڈالا جائے. متعلقہ اتھارٹی سے اس مطالبے کو منظور کروانا اِس لئے بھی مشکل نہیں ہے کہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن آلریڈی آج سے دو دہائی پہلے عالمیہ کو ایم اے عربی و اسلامیات کی مساوی قرار دے چکا ہے. لیکن ایسا کرنے سے ایک دوسرا پیچیدہ مسئلہ جنم لے گا وہ یہ کہ جب اسلامیات و عربی کی اسامیوں پر اپلائی کرنے کے لئے پروفشنل کی صورت میں سِرے سے کوئی شرط ہی موجود نہیں ہو گی تو پھر کوئی بھی شخص اسلامیات و عربی کی اسامیوں کے لئے ایلیجیبل متصور ہو گا. پھر مدرسے کے فاضل اور عربی و اسلامیات میں ماسٹر کے علاوہ دوسرے سبجیکٹس کے ماسٹرز بھی عربی و اسلامیات کی اسامیوں کے لئے اپلائے کر سکیں گے.. یقینی طور پر اِس صورتحال کی تکلیف سب سے زیادہ علماء کو ہی ہو گی نتیجتاً پھر علماء کرام کی طرف سے یہی رونا رویا جائے گا کہ حکومت عربی و اسلامیات کو خصوصی اہمیت نہیں دے رہی. موجودہ پالیسی کے برقرار رہنے کی صورت میں مارکس نہ سہی، کم از کم اتنا ایڈوانٹیج تو مل رہا ہے کہ اسلامیات و عربی کے لئے یا تو کسی مدرسے کا فاضل ہونا ضروری ہے یا عربی و اسلامیات میں ایم اے کرنا..
اس سارے منظر نامے سے کچھ دوست زبردستی پی ٹی آئی حکومت کی مولوی دُشمنی بھی برآمد کر رہے ہیں حالانکہ میری دانست میں یہ انتظامی دائرے کا ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے. وفاق المدارس سیاست ایک طرف رکھ کر مخلصانہ اپروچ کے ساتھ اس کے لئے کوشش کرے تو یہ مسئلہ بھی علماء کے منشاء و مطالبے کے مطابق حل ہو سکتا ہے. سیاسی پوائنٹ اسکورنگ الگ چیز ہے جبکہ مسئلے کو حل کرنے کے سنجیدہ جدوجہد ایک دوسری شئی ہے. اِن دونوں میں فرق کرکے اس ایشو کو حل کرنے کے لئے وفاق المدارس کی طرف سے ٹھوس کوششیں ہونی چاہئیں.
ہمارے صوبے میں اِس سے پہلا والا حکومتی ٹینیور بھی تحریک انصاف ہی کا تھا ان پانچ سالوں میں جیّد اور مستند علماء کی ایک بڑی اور معتد بہ تعداد عربی و اسلامیات کے اساتذہ کی صورت میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بن چکی ہے . خود چترال میں دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک عربی و اسلامیات کی اسامیوں میں بھرتی شُدہ اساتذہ کرام نوے فیصد سے زیادہ عالمیہ کی سند کے حامل علماء کرام ہیں. دو ہزار چودہ کی عربی و اسلامیات کے دَس اپائنٹیز میں سے نو علماء تھے ، اسی طرح دو ہزار پندرہ کے سات اپائنٹیز میں سے چھ علماء ، دو ہزار سولہ میں چار کے علاوہ سب کے سب علماء، دو ہزار سترہ کے تئیس میں سے بائیس علماء جبکہ دو ہزار اٹھارہ کے چودہ اپائنٹیز میں سے بارہ علماء ہیں…ایسے میں کیسے تسلیم کیا جائے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں علماء کا راستہ روکا جا رہا ہے؟؟؟

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
17049