Chitral Times

بے معنی سیاست کا وتیرہ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

سینیٹ انتخابات قبل ازوقت کرانے کی حکومتی تجویز نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا، تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ آرٹیکل 186کے تحت حکومت، اعلیٰ عدلیہ سے راہنمائی لے گی، اس سے قبل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف بھی سابق صدر زرداری کی جانب سے ریفرنس داخل کیا گیا تھا۔ فوجداری مقدمے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل سات ججوں نے متفقہ طور پر مسترد کردی تھی، آئینی ماہرین نے کے نزدیک کسی الجھن یا قومی مسئلے پر رجوع کیا جاسکتا ہے تاہم فوجداری مقدمہ کا ری اوپن  ہونا جداگانہ معاملہ ہے۔ واضح رہے کہ اُس وقت پی پی پی میں شامل بابراعوان کہہ چکے تھے کہ ”سپریم کورٹ یہ ریفرنس نہیں سنتی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس نے دوسری مرتبہ بھٹو کو پھانسی دے دی ہے“۔ البتہ سینیٹ انتخابات قبل ازوقت کروانے اور ووٹنگ کے طریقہ کار پر اعلیٰ عدلیہ میں جانے کا عندیہ سوالیہ نشان ہے کہ آئینی معاملات پر حکومت کو پارلیمنٹ میں جانا چاہیے یا عدلیہ، سیاسی پنڈت اسے عدلیہ پر دوہرا دباؤ ڈالے جانا قرار دے رہے ہیں۔کیونکہ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کے اثرات سیاسی ہوں گے۔


سینیٹ انتخابات مارچ میں ہونا ہیں، پی ڈی ایم فروری تک اپنا ترپ کا پتا پھینکنا چاہتی ہے، اب ان سیاسی چالوں کی آئینی و قانونی پر ماہرین کے ساتھ پارلیمان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت زیادہ ہے،سوا دو برس جس طرح پارلیمانی اداروں کی بے توقیری خود اراکین نے کی، اسے مثالی نہیں کہا جاسکتا، اس کے باوجود قبل ازوقت سینیٹ کے انتخابات کرانا حکومت کی ذمے داری ہے یا الیکشن کمیشن کا فرض، یہ آئین میں واضح ہے۔ کھربوں روپے خرچ کرنے کے باجود اگر پارلیمنٹ اس اَمر کی اہلیت نہیں رکھتی کہ قانون سازی کے لئے سینکڑوں اراکین مشاورتی عمل بھی کرنے میں معذور ہیں، تو پھر ایسی پارلیمنٹ، خصوصی نشستوں پر براہ راست منتخب ہونے والے ٹیکنو کریٹ، بیورو کریٹس وغیرہ وغیرہ کو کیوں قومی خزانے پر بوجھ بنایا گیا، عدلیہ بھی وہی کچھ کرنے کی پابند ہے، جو آئین میں انہیں حاصل اختیارات ہیں۔ اپنی تمام تر کم عملی کے باوجود پاکستانی شہری ہونے کے ناتے یہ میرا حق بنتاہے کہ میں اُن نمائندوں سے ضرور پوچھوں کہ قانون ساز اداروں میں اگر ووٹ کی طاقت سے آئے ہیں، تو قانون سازی بھی خود کریں، پارلیمنٹ کو ربڑ کی طرح کیوں کھینچ رہے ہیں۔


 محمود خان اچکزئی کے حوالے سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن مجبوری بھی ہے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے۔ قوم پرستوں کی سیاست، صرف مخصوص طبقے کی نمائندگی ہوتی ہے، اور اس طبقے میں بھی کئی جماعتیں و تنظیمیں اپنا موثر اثر رکھتی ہیں، اس لئے اگر عوامی لہجے میں کہا جائے کہ کوئی بھی قوم پرست جماعت یا تنظیم، کسی بھی نسل، ذات یا لسانی اکائی کی ٹھیکدار نہیں، یہ ضرور ہے کہ لسانی اکائیوں کو اپنے مخصوص مسائل کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے، جسے قومی دھارے میں شامل جماعتوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی کراچی میں آئے اور سندھ کے باسیوں اور ان کی مادری و قومی زبان بالخصوص اردو کے حوالے سے بچگانہ بیان بازی کرکے اپنا ”بغض“ نکالے، بغض کا ہونا زمینی حقائق کی طرح میرے لئے منکشف ہیں، کیونکہ راقم اس اَمر کا گواہ ہے کہ جب کراچی میں لسانی فسادات عروج پر تھے تو مشر محمود خان اچکزئی کو دورے کی دعوت دی گئی، لیکن انہوں نے صاف آنے سے انکار کرتے ہوئے اسے ایم کیو ایم اور اے این پی کا ذاتی تنازع قرار دیا۔ حالاں کہ محمود خان اچکزئی پشتون قوم پرستی کی سیاست کرتے ہیں اور کراچی میں لسانی سیاست کی وجہ سے لسانی اکائیوں کے درمیان نفرت و بدگمانی کی خلیج بڑھتی جا رہی تھی لیکن اس کے حل کے لئے انہوں نے کبھی سندھ کے مستقل آباد پختونوں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا، میں بذات خودقومی زبان پر غیر سنجیدہ بیان بازی پر دل گرفتہ ہوا۔ کوئٹہ میں اویس نورانی نے اہل علم ہوتے ہوئے بھی لفظوں کے چناؤ اور ادائیگی پر مکمل دسترس رکھنے کے باوجود جس قسم کا بیانیہ دیا، وہ بھی انتہائی غیر سنجیدہ و مایوس کن تھا، بعدازاں انہوں نے تشریح کی لیکن کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلے الفاظ واپس نہیں لوٹا کرتے۔


پی ڈی ایم نے لاہور میں جلسہ کیا، اس پر تبصروں و تجزیوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے، ہر تبصرہ و تجزیہ بھی قابل غور نہیں ہوتا، لیکن بغضِ پنجاب کے حوالے سے ماضی کی وقیانوسی سوچ کے ساتھ متنازع بیان بے موقع و بے محل تھا، اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی،  توقع تھی کہ منظور پشتین کے چیلے محسن داوڑ کو نکال باہر کرنے کے بعد پی ڈی ایم جمہوری طریقے سے ملکی مسائل کا حل نکالے گی، کیونکہ پشتین کی تھیوری، ریاست سے براہ راست ٹکراؤ کی رہی ہے، جس سے پختون قوم سے تعلق رکھنے والے، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے متعلق ہوں، اس کے مضر اثرات کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں دیگر لسانی اکائیوں، بالخصوص پختون مخالف قوتوں کا سخت دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے، جذباتی اور بے معنی سیاست کا وتیرہ، میرے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اس لئے بھی ہے، کیونکہ سندھ کے پشتو بولنے والے عوام، لسانی آگ و خون کا سمندر دیکھ چکے، جلسوں و ٹاک شوز میں بے تکی تکرار سے لسانی نفرت و منافرت نے کروڑوں انسانوں کا سکون و امن برباد کیا، اب جس کے جو بھی مقاصد ہیں، انہیں قوم پرستی کی بات کرنی ہو تو صرف’پاکستانیت‘ کی بات کریں، اس کے علاوہ لسانی اکائیو ں کے درمیان نفرتوں کی فصیل قائم کرنے کی ہر کوشش کی کسی بھی پلیٹ فارم سے مذموم و قابل مذمت قرار پائے گی۔


پی ڈی ایم ، حکومتی اسٹریجی کا مقابلہ کیسے کرتی ہے، یہ برسوں  پر میحط نہیں بلکہ چند ہفتوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے دعوے اصل حقیقت کے ساتھ عوام کے سامنے ہوں گے، تاہم اس وقت سیاسی جماعتوں، بالخصوص میڈیا کو ایسا ماحول پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جس سے سیاسی کشیدگی و افراتفری میں اضافہ ہو اور بے حال عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت سیاست و اعصاب کی جنگ ہے، میڈیا کو سیاسی فریق بننے سے گریز کرنا چاہیے، تمام اداروں کا اپنی آئینی حدود میں کام کرنا، ملک کی سلامتی و بقا کے لئے ناگزیر ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43531