Chitral Times

بھارت جنوبی ایشیا کا پہلا و دنیا کاپانچواں خطرناک ترین ملک قرار… قادر خان یوسف زئی

Posted on

سکیورٹی اور تحفظ کے اعتبار سے بھارت جنوبی ایشیا کا پہلا و دنیا کاپانچواں خطرناک ترین ملک قرار
16نومبر: برداشت و روادری کا عالمی دن

دنیا بھر میں برداشت اور رواداری کا عالمی دن 16نومبر کو منایا جاتا ہے،اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں برداشت، صبر و تحمل کی اہمیت، دوسروں کے عقائد و حقوق کا احترام اور عدم برداشت کے معاشرے پر رونما ہونیوالے منفی اثرات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔1996 میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے (قرارداد 51/95 کے ذریعہ) اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو 16 نومبر کو عالمی یکجہتی کے لئے منانے کی دعوت دی۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کے سال برائے رواداری، 1995 کے نام پر عمل میں آیا، جس کا اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1993 میں یونیسکو کے اقدام پر کیا۔اس وقت دنیا بھر میں برداشت کی جتنی ضرورت ہے وہ اس سے قبل کبھی نہیں محسوس نہیں کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی دن کے موقع کے مناسبت سے عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے عالمی برداری کو اس وقت انتہا پسندی اور وسیع تنازعات کے اس پُرآشوب دور میں روادری کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ عدم تشدد کے فلسفے و آگاہی کو فروغ دینے کے لئے ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مذہبی رواداری اور برداشت کو فروغ دیا جانا از حد ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد اور مذاہب کا احترام کرنا آج کل کے دور کی اہم ضرورت بن گئی ہے۔ماہرین کی تجویز ہے کہ اس کا آغاز بچپن سے ہی کیا جائے اور بچوں کو برداشت کرنے کی تعلیم دی جائے۔عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ برداشت نہ کرنا اور عدم رواداری ہے۔ عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں۔عدم برداشت انفرادی طور پر بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور لوگ بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف نفسیاتی و ذہنی بیماریوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی عدم برداشت ہے۔ ایک سروے کے مطابق کینیڈا دنیا کا روادار ترین ملک ہے جہاں مذہب سمیت تمام اختلافی پہلوؤں کو برداشت کیا جاتا ہے۔ عدم روادار ممالک میں ایک ملک بھارت بھی ہے جہاں اختلافات کو برداشت نہ کرتے ہوئے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا رجحان عروج پر ہے۔
.
ورلڈ انڈیکس نے2019 کے20 خطرناک ترین ممالک کی فہرست جاری کردی،ان ممالک میں سرفہرست برازیل،دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ، تیسرے پر نائیجریا،چوتھے پر ارجنٹینا اور پانچویں نمبر پر بھارت،پیئرو کا چھٹا نمبر،کینیا ساتویں،یوکرائن آٹھویں،ترکی نویں اورکولمببیا کا دسواں نمبر ہے۔ورلڈ انڈیکس کی جاری کردہ رپورٹ میں دنیا کے20 خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا نام نہیں ہے،فہرست میں گیارہ نمبر پر میکسکیو، متحدعرب امارات بارہ نمبر پر،مصر کا تیرواں نمبر،فلپائین چودہ نمبر پر ہے، اسی طرح اٹلی پندرہ،امریکی ریاستیں سولہ، انڈونیشیا سترہ،یونان اٹھارہ،کویت انیس اور 20 ممالک کی خطرناک ترین فہرست میں آخری نمبر پرتھائی لینڈ شامل ہے۔ تارکینِ وطن کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے بھارت کو غیر ملکیوں کے لیے جنوبی ایشیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔’انٹر نیشن’ نے اپنے ایک حالیہ سروے کے بعد غیر ملکیوں کے لیے دنیا کے بہترین اور خطرناک ملکوں کی فہرست جاری کی ہے جس میں سکیورٹی اور تحفظ کے اعتبار سے بھارت کو جنوبی ایشیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔’انٹر نیشن’ 64 ملکوں میں کام کر رہی ہے اور اُن افراد کی معاونت کرتی ہے جو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔اس سروے میں 182 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 20 ہزار 259 افراد کی رائے لی گئی۔ رائے دہندگان میں وہ لوگ شامل تھے جو اپنا آبائی ملک چھوڑ کر دنیا کے دیگر 187 ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔سروے میں شامل افراد سے معیارِ زندگی، رہائشی اخراجات، سکیورٹی اور تحفظ، امن و امان اور سیاسی استحکام کے بارے میں رائے لی گئی تھی جس کے نتائج کی بنیاد پر ملکوں کی فہرست ترتیب دی گئی ہے۔’انٹر نیشن’ نے سکیورٹی اور تحفظ کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے خطرناک ترین ملکوں میں بھارت کو پہلا نمبر دیا ہے جب کہ دنیا کے خطرناک ملکوں میں بھارت کا پانچواں نمبر ہے۔بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک 10 خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
.
پاکستان کا نام ورلڈ انڈیکس کے 20خطرناک ناک ممالک اور انٹرنیشن کے رپورٹ میں شامل نہیں ہے۔عالمی اداروں کی مرتب کردہ رپورٹس کے حوالے سے یہ امر قابل اطمینان ہے کہ پاکستان میں عدم تشدد و عدم روادری کے کلچر کو ضرب نہیں پہنچی ہے۔ پاکستا ن اس وقت دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ مملکت کی تینوں سرحدوں پر ملک دشمن عناصر کی جانب سے سازشوں کی مذموم کوشش کی جاتی رہتی ہے۔ تاکہ مملکت میں مذہبی عدم برداشت، فرقہ واریت، لسانیت اور گروہ بندیوں سے کمزور کیا جاسکے، لیکن ریاستی اداروں کی کاوشوں سے پاکستان ان عالمی سازشوں کا مقابلہ سیکورٹی اہلکاروں کی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر، کررہا ہے۔بھارت اس وقت ہر لحاظ سے مذہبی اقلیتوں سمیت خواتین کے لئے ایک انتہائی خطرناک ملک کی صورت میں عالمی دنیا کے سامنے ہے۔ انسانی حقوق کو غضب کرنے اور پامالیوں میں بھارت نے بدنامی کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر سے لے کر بھارت کے طول و عرض میں کوئی بھی مذہبی اکائی آرایس ایس کے فاشٹ نظریات سے محفوظ نہیں ہے، خاص کر مسلم کشی کے واقعات نے بھارت کا سیکولرازم کا چہرہ مزید بے نقاب کردیا ہے کہ بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت (نام نہاد) و سیکولر اسٹیٹ قرار دیتا تھا، دراصل بھارت ہندو انتہا پسند مملکت ہے جہاں خود ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے محفوظ نہیں ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات پر بھارت کا گھناؤنا چہرہ خود بھارتی عوام کے لئے بدنما داغ بن چکا ہے۔ یو رپی ممالک، بھارت جانے والے اپنے شہریوں کو باقاعدہ ایک ہدایت نامہ جاری کرتی ہے کہ انہیں اپنے جان، مال اور عصمت کی حفاظت کس طرح کرنی ہے، کہاں جانا چاہے اور کہاں انہیں احتیاط برتنی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلم خواتین کی عصمت دری کے واقعات پر تو خود اقوام متحدہ کے حکام بھی آبدیدہ ہوگئے تھے۔ لیکن بھارت کی خودسری کو روکنے کے لئے عالمی برداری کا کردار افسوس ناک حد تک تجارتی مفادات کی وجہ سے مفلوج نظر آتا ہے۔
.
ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ممالک روادری و عدم تشدد کے بغیر معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔ ہر نوع اقسام کے معاشرے میں انسانیت کا احترام و روادری کے فروغ کے لئے ریاست کے فرایض میں شامل ہے۔ماہر معاشیات‘ مورخ اور سوشیل سائنٹس امیابگاچی کا کہنا ہے کہ ”بھارت میں ماضی کے مقابلے میں موجودہ حالات میں گائے کے نام پر تشدد برپا کرنے والوں کو گرفتار کیاجاتا ہے اور ان کی رہائی کے بعد مودی حکومت انہیں ملازمتیں فراہم کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلی صدی کے 80کے دہائی سے دہشت گردی کے نام پر کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ بدسلوکی کی گئی ہے۔ اب پلواما قتل عام کے بعد انہیں منظم انداز میں نشانہ بنایاگیا‘بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ جہاں تک گائے کی حفاظت کی تحریک ہے دوسری جانب اس نے مارپیٹ کی منظوری دیدی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں او دلتوں کو قتل کرنا اور دہشت زدہ کیاجارہا ہے۔“
.
اس وقت عالمی منظر نامے کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو ہمیں چہار اطراف ایک ایسا ماحول نظر آتا ہے جہاں معاشرتی ناہمواریاں اپنے عروج پر ہیں۔ عالمی سروے تنظیموں کا اپنا ایک پیمانہ ہے جس کے تحت وہ اقوام یا ممالک کے رجحان کا اندازہ لگاتے ہیں۔ لیکن ایک عام فرد یہ ضرور سوچتا ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے دنیا اس وقت حقیقی خطرے میں ہے۔ امریکا اس وقت دنیا کے کئی ممالک کی خانہ جنگیوں و اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کرتا نظرآتا ہے۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو مسلسل 40برس سے زاید امریکی مفادات کی مشق گاہ بنا ہوا ہے۔ پہلے سوویت یونین کے خلاف تو اب افغان طالبان کے خلاف امریکی کردار نے خطے میں بے امنیکے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے صرفِ نظر کیا ہوا ہے۔لاکھوں افغانی اپنی سرزمین سے دور تارکین وطن کی مشکل ترین زندگی بسر کررہے ہیں۔ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کا آثار ختم ہوتے نہیں کہ شدت کے ساتھ دوبارہ ایک نئی چھڑپوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔ انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت کی وجہ افغان عوام اس وقت شدید کرب کے عالم سے گذر رہی ہے۔بنگلہ دیش و برما میں روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ جو بدترین سلوک ہو رہا ہے۔ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کائنات کی مظلوم ترین اقلیت اس وقت اپنے وطن سے دور مستقبل سے ناواقف معاشرتی استحصال کا بدترین نمونہ ہے۔ اقوام متحدہ افغانستان کی طرح برما کے مسلمانوں کو بھی انصاف کی فراہمی میں ناکام نظر آتی ہے۔ عراق میں گزشتہ دو دہائیوں سے عوام کو لاقانونیت، انتشار کا سامنا ہے۔پر تشدد مظاہروں میں ان گنت افراد کی قیمتی جانوں کا نقصان ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ مملکت شام کی فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں نے انبیا کی سرزمین کو خون سے لبریز کردیا ہے۔عالمی قوتوں کا اکھاڑہ اور مشرق وسطیٰ میں بدترین لاقانونیت میں دھنسے والے لاکھوں شامی اپنے گھروں سے بے گھر دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ان کا اور ان کے بچوں کے مستقبل محفوظ نہیں ہے۔یمن میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے دودھڑوں کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں لایا گیا ہے۔ جس سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ باغیوں کے خلاف موثر کاروائی سمیت یمن سے جنگ کا خاتمہ ممکن ہونے میں مدد ملے گی۔ یمن کی عوام، خاص طور پر بچوں کو بدترین غذائی قلت کا سامنا ہے۔ سعودی اتحاد ی افواج کے حملوں سے متاثرہ بے قصور عوام کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ افریقی ممالک بالخصوص صومالیہ میں انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت اپنے عروج پر ہے۔ ترکی، کرد دہشت گردوں کے خلاف عملی طور پر شام کی بدترین جنگ میں داخل ہوچکا ہے۔ غرض یہ ہے کہ از یل،جنوبی افریقہ، نائیجریا،ارجنٹینا،پیئرو،کینیا،یوکرائن،کولمببیا، میکسکیو، متحدعرب امارات،مصر،فلپائن اٹلی،امریکی ریاستیں، انڈونیشیا،یونان،کویت اورتھائی لینڈ میں نسل پرستی، تارکین وطن کے خلاف معتصب و متشدد رویہ، معاشرتی استحصال اور جرائم کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے عوام کو تحفظ حاصل نہیں ہیں۔ان کی بنیادی وجوہات میں سنجیدگی کے ساتھ اُن عوامل کو ختم نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت پھیلتی ہے۔برداشت و روادری کے عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ عالمی برداری کی توجہ اُن کے اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ دنیا کو درپیش مشکلات کی جانب بھی دلائی جاسکے۔
.
غربت کو ختم کے لئے تعلیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والی سماجی تبدیلی کی کوشش کی جا سکتی ہے۔دنیا کو روداری اعتدال پسندی او ردوسروں کے احترام کے لئے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے جبکہ نسلی سیاست تشدد اور بربریت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔بین المذاہب مکالمے اور تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں میں رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی مشترکہ اقدار کو فروغ دینے کے عزم کی ضرورت ہے۔سول سوسائٹی کی تنظیمیں معاشرے کی ترقی اور جدت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔نوجوان کو بااختیار بنانے کیلئے تعلیمی و قومی خدمات، سماج و نوجوان کو بااختیار بنانے کے سٹریٹجک ستون کیلئے تیکنیکی، ذہانت اور خوراک کی سکیورٹی اور معاشرے کی بھلائی کو بہتر و بااختیار بنانے میں مستقبل کے منصوبوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔عالم اسلام کا یک آواز ہونا اہل مغرب میں اسلام دشمنی اور نفرت کے جذبات میں کمی لانے کیلیے فائدہ مند ثابت ہو سکے گا۔آج ہم امن محبت اور روادری کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اگر ہم حقیقی معنوں میں امن، محبت روادری اور انصاف کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہو گا۔ رواداری، عدم تحمل کی ضد ہے یعنی کہ یہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اسلام میں مذہبی رواداری کی تعلیمات ایک روشن باب ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ انسانیت اور مذہبی رواداری کی بے شمار روایات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ مذہب اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک، انسانوں کی خدمت اور ان کی بہتری ہی سر فہرست ہے۔ قرآن مجید میں رواداری، فراخدلی اور انسان دوستی کی جو تعلیمات دی گئیں ان پر رسول خدا حضرت محمد ﷺنے عمل کر کے دکھایا،ارشاد باری ہے: ((اے محمدؐ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔)آل عمران: 159۔ ”آپ ﷺ کا ارشاد گرامی بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے، ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے، اس کے نزدیک سب سے پسندیدہ انسان وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے،اچھا برتاؤ کرے،حضورؐ کی تعلیم یہ بھی رہی کہ ایک دوسرے سے تعلقات ختم نہ کئے جائیں، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرا جائے، ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھا جائے، ایک دوسرے سے حسد نہ کیا جائے، بس سب کو آپس میں خدا کے بندے بن کر رہنا چاہئے۔ آپؐ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر خدا بھی رحم نہیں کرتا، اسلام کے دشمنوں کے مظالم سے تنگ آکر ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے آپؐ سے ان کے لئے بددعا کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا: ”میں لعنت اور بددعا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ”۔
.
حالات حاضرہ میں روادری اور عدم تشدد کی آگاہی کے لئے ذرائع ابلاغ کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص کر سوشل میڈیا میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے مادے کو ختم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت بڑ ھ جاتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم کا زیادہ تر استعمال نوجوان نسل شتر بے مہار کی طرح کررہی ہے۔ یہ ایک طرح کی دہشت گردی کی قسم ہے جس سے ایک انسان کی جان، عزت و احترام قائم نہیں رہتا۔ کسی انسان کو خوف زدہ کرنے، تکلیف پہنچانے یا پھر انفرادی عمل سے نقصان پہنچانے کے خدشات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کی مختلف صورتوں میں بدترین عمل ماحولیات کو نقصان پہنچانا، عوامی و ذاتی املاک کو ضائع و برباد کئے جانا اور امن کے نام فساد کو بڑھاوا دیناہے۔ اللہ تعالی ایسے عوامل سے منع فرماتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا(سورہ قصص: 77)۔آج کے جدید دور میں میڈیا ایک ایسا ذریعہ بن چکا ہے جہاں سے کوئی بھی اپنے مطالبات، آرا اور شرائظ وغیرہ سے اپنے وسائل کے مطابق تشہر کرسکتا ہے۔ یہاں ذمے داری صرف فرد واحد کی نہیں بنتی کہ وہ معاشرتی بگاڑ کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے بلکہ اجتماعی فرایض میں شامل ہوجاتا ہے کہ کسی بھی ایسی خبر یا شدت پسندی کو مزین کرکے پیش نہ کیا جائے جس سے ناقاعبت اندیش نوجوان اصلاح کے بجائے فساد کی تقلید پر روبہ گامزن ہوسکیں۔انٹرنیٹ ایک ایسا وسیلہ بن چکا ہے کس کا مثبت یا منفی استعمال براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ ریاست یا ریاست مخالف قوتیں انٹر نیٹ کی سہولت کو اپنے نظریات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک ففتھ جنریشن وار کی صورت میں دنیا بھر میں مسلط کی جاچکی ہے۔ جہاں نظریات و افکارکے درمیان کشمکش و جنگ جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ اُن ہلاکت خیز ہتھیاروں میں بھی شمار کیا جاتا ہے جس سے نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ قوموں کو بھی بہکایا جاسکتا ہے۔ علم و معرفت کے اس سر چشمہ کے استعمال کو مثبت و منفی دونوں طریق سے شدت سے استعمال کیا جارہا ہے۔ذرائع ابلاغ اگر پیشہ وارنہ دیانت کے ساتھ اپنے فرائض انسانیت کے خدمت کے لئے صرف کریں تو کسی بھی قوم کی بیداری و شعور کی آگاہی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔حقیقی و مثبت معلومات پہنچا کر نئی نسل کو تباہ کاریوں کے اسباب سے کماحقہ آگاہ کیا جاسکتا ہے۔دنیا کو لسانی، مذہبی، سماجی بحران کی شکار مختلف اقوام، قبیلوں میں ایک دوسرے کے مذہب وعقیدے کے خلاف نفرت آمیز رویہ ختم کرنے ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
28675