Chitral Times

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

نوائے سُرود ۔ الفاظ کا جُھنجُھنا ۔ شہزادی کوثر

اپنی جنم بھومی سے محبت اور عقیدت کا بڑا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہوتا ہے جو انسان کے رگ وریشے میں ساری زندگی کے لیے سرایت کر جاتا ہے ۔جس میں آب و ہوا ،علاقے کی روایات، لوگوں کے آپس کے تعلقات شامل ہیں ،ان ہی چیزوں سے ہماری شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے۔ بچپن سے جو کچھ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا میں دیکھتے ،جو کھاتے پیتے ہیں ،زمین کی کوکھ سے ہر طرح کی لذت ،طاقت اور توانائی حاصل کرتے ہیں انہی کے سہارے ہماری زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں جو آگے جا کر ہمارے وجود اور شخصیت کی عمارت کو خدوخال اور دلکشی عطا کرتے ہیں ۔

جس طرح والدین رشتہ داروں اور اولاد کے حقوق ہیں ،اسی طرح علاقے اور وطن کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔جنھیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے عمدگی سے ادا کرنا ہونگے۔ صرف زبانی کلامی محبت کے اظہار سے یہ حق ادا نہیں ہوا کرتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عملی کام کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے بر عکس اگر صرف بولنے کا مقابلہ کروایا جائے تو کوئی بھی ہم سے نہیں جیت سکتا ۔ بڑے بڑے دعوے کر کے عوام کو بےوقوف بنانے سے لے کر اپنے بے روح وعدوں کے ذریعے انہیں سبز باغ دکھانے تک کا کام بڑی آسانی سے انجام دیا جاتا ہے۔ ساری گفتگو ” چاہییے ” کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی کام عملی شکل میں کم ہی سامنے اتا ہے ۔ جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے وہ اسے استعمال کرنے کے فن سے نا واقف ہیں۔ 

اس وقت بہت سے مسائل منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار ہیں جن میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت،بنیادی سہولیات کا فقدان، سڑکوں کی خستہ حالت، صاف پانی کی عدم دستیابی، ہسپتالوں میں ناقص انتظام ،اشیا خورد ونوش میں ملاوٹ ،بڑھتی ہوئی آبادی،زمینی آبی اور فضائی آلودگی ان کے علاوہ بے شمار معاشی معاشرتی اور اخلاقی مسائل ہیں جن میں ہم بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں ۔ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی خضر ملے گا یا آسمان سے کسی فرشتے کے اترنے کا انتظار ہے؟  یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ان کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔ اگر چھوٹے پیمانے پہ کوئی مسلہ پیدا ہو تو اسی وقت اس کا تدارک کرنے سے معاشی مشکلات میں کافی حد تک کمی آئی گی۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں ایک طرف غربت ،تنگدستی اور معاشی ابتری کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف  فضولیات لاکھوں خرچ کرتے ہیں ۔اگر واقعی میں ملکی حالات ناگفتہ بہ ہیں تو اخراجات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں کہ کہیں بے مصرف جگہ پہ خرچ تونہیں ہو رہا ؟ اگر کوئی فنڈ ملا ہے تو ایسے کاموں میں لگا دیا جائے جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ ملک وقوم سے محبت کے دعوے دار صرف ” آئی لو چترال ” کے بورڈ لگا کر کیا اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے۔۔؟

محبت چار حروف کی ادائیگی کا نام نہیں یہ عملی طور پر کچھ کرنے کا نام سے جس سے سب کا بھلا ہو سکے۔ یہ جولاکھوں روپے لگا کر اظہار محبت کیا گیا ہے بے شک اچھا لگ رہا ہے لیکن  میری ناقص رائے ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان پیسوں سے کہیں کنواں کھودا جاتا ،کسی یتیم خانے کی مالی معاونت کی جاتی ،کسی غریب طالب علم کے لیے ماہوار وظیفہ مقرر کیا جاتا تا کہ وہ بغیر مالی پریشانی کے اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرتا، کسی خیراتی ادارے میں لگائے جاتے،سڑکوں پہ پڑا ہوا ملبہ ہٹایا جاتا ، کہیں پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ،شہر میں کچھ جگہوں پے کوڑے دان رکھوائے جاتے ، کچرا تلف کرنے کے لئے بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے یا  مختلف جگہوں پر انتظار گاہ بنوائے جاتے تاکہ سکول جانے والے بچے بارش اور سورج کی تمازت سے بچ جاتے ڈیوٹی پہ جانے والی خواتین کو سہولت مل جاتی ، سڑکوں میں جگہ جگہ گڑھے بنے ہیں ان کی پیوند کاری کروائی جاتی ۔۔۔،

ہزاروں ایسے کام  ہیں جو بہت کم پیسوں سے کیے جا سکتے ہیں ۔۔  صرف” آئی لو یو ” کہنے سے ملک اور علاقے کا حق  ادا نہیں  ہوتا۔ جن کے  ہاتھ میں اختیار ہے جو علاقے کی خدمت پر مامورہیں حکومت کی طرف سے لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں جن کے ہاتھ میں فنڈز آتے ہیں انہیں زیب نہیں دیتا کہ عوام کو ان چیزوں سے ٹرخائیں۔۔۔ 

بیوٹیفیکیشن کے نام پہ بڑی بڑی اسکرین لگانے یا گراونڈ کے چاروں طرف برقی قمقمے لگوانے سے پسی ہوئی عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔۔؟ ہم غریب ملک کیےلٹے پٹےاور مقروض باشندے ہیں ہماری معیشت اجازت نہیں دیتی کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کا معیار زندگی اپنانے کی کوشش کریں ۔

ہمارا بال بال قرض کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ہمارے ہاتھ سے گدائی کا کشکول ابھی نہیں گرا اس لیے ہم ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہہمیں سائن بورڈ اور اسکرین کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے مسائل تبہی حل ہوں گے جب عوام کا پیسہ انہی کے کام ائے انہیں سہولیات دی جائیں اوران کا پیسہ صحیح جگہ پر استعمال ہو۔ جہاں عملی اقدام کی ضرورت ہے وہاں محبت کی افیون سے کام نہیں لیا جاتا۔ اگر ذاتی ۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح کام کریں گے اپنے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کا تہیہ کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو وطن کا حق ادا ہو گا ورنہ صرف “آئی لو چترال ” کہنا بھوک سے بلکتے بچے کے ہاتھ میں جھنجھنا دینے کے مترادف ہے۔                                                                                        

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50716