Chitral Times

آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر……. پیامبر……قادر خان یوسف زئی

Posted on

قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا مرحلہ طے ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے آج(17اگست) انتخابات ہوئے۔ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت سے تحریک انصاف کے نامزد سپیکر اسد قیصر کی کامیابی نے انتقال اقتدار پر چھائے ہلکے خدشات بھی ختم کر دیے تھے۔ ۔اب وزارت عظمیٰ کے انتخابات کے موقع پر نتائج کی صورت جو بھی ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کامیاب ہوچکے ہیں۔ کپتان کو پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم لکھا اور پکارا جائے گا۔ ملک میں اقتدار کی منتقلی کا تیسرا دور ہے۔ اس سے قبل ’دو جمہوری حکومتوں‘ کے انتقال کا عمل پُرامن طریقے سے تمام تر ’’تحفظات‘‘ کے باوجود مکمل ہوا تھا۔ موجودہ حکومت کو انتقال اقتدار تمام تر ہنگامہ آرائیوں، تحفظات و خدشات کے ساتھ شدید بے یقینی کا شکار رہا، لیکن قیام پاکستان کے بعد تیسری بار یہ موقع آیا کہ ایک جمہوری حکومت کو ’’الیکشن‘‘ کے بعد اقتدار منتقل ہوا ہے۔ گو مسلم لیگ(ن) نے نئے قومی اسمبلی سپیکر اسد قیصر کا استقبال شدید احتجاج کے ساتھ کیا اور اسے ’’جعلی مینڈیٹ‘‘ قرار دیا۔
مسلم لیگ(ن) کی سابق حکومت کا زیادہ تر دور، دھرنوں، مقدمات، احتجاج مظاہروں، سول نافرمانی، مڈٹرم الیکشن، جوڈیشل مارشل لا، ٹیکنو کریٹ حکومت سمیت مارشل لا لگنے کی افواہوں میں گزرا۔ ریاستی اداروں سے تصادم، ریاستی ستونوں میں عدم توازن کے علاوہ پڑوسی ممالک کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں اور سازشوں نے بھی سابق حکومت کے لیے چیلنجز پیدا کیے۔ مالی طور پر پاکستانی معیشت قرضوں تلے دبتی چلی گئی اور کئی بڑے برج ’’الیکشن‘‘ میں زمیں بوس ہوئے اور پہلی بار ایک ایسی ’’سیاسی جماعت‘‘ کی حکومت بننے جا رہی ہے جس میں پاکستان کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کے سابق عہدے داران شامل ہیں۔ کابینہ کی تشکیل کے بعد اس کا ضرور جائزہ لیں گے کہ نئی حکومت کی کابینہ میں ایسے کتنے وزرا ہیں جو خالص تحریک انصاف کے قیام سے اب تک اپنی جماعت سے وابستہ رہے۔ بہرحال اس وقت کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر سوار تحریک انصاف، مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی ہے۔ کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ میرے نزدیک عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی جماعت کی جانب سے کیے جانے والے بڑے بڑے وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ اپنے انتخابی منشور سمیت مختلف تقاریر میں عمران خان ’ناقابل یقین‘ دعوے کرچکے ہیں، کیونکہ آمریت کے ساتھ جمہوری جماعتوں میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار کی دوڑ سے باہر ہوئی ہیں اور پہلی بار باقاعدہ ایک ایسی’’سیاسی جماعت‘‘ کے پاس ’عنان حکومت‘ ہے جو 22 برسوں سے ’’اقتدار‘‘ میں آنے کی کوشش کررہی تھی، تاہم ماضی کی طرح کسی ’تانگہ پارٹی‘ یا ’فارورڈ بلاک‘ بنانے کا تجربہ نہیں کیا گیا، اس لیے عوامی توقعات کا سونامی عروج پر ہے۔
تحریک انصاف اور ان کی اتحادی سیاسی و ’غیر سیاسی‘ قوتیں آنے والے دور میں کیا کردار ادا کرتی ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم ملک کی بقا و سلامتی کے لیے تمام عوام تہہ دل سے دعاگو ہیں کہ پاکستان دگرگوں و سنگین مسائل سے باہر نکل سکے۔ اپوزیشن کا رویہ کیا رہتا ہے، اس کی ایک جھلک قومی اسمبلی کے دوسرے سیشن میں دیکھنے کو مل چکی ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیونکہ مسلم لیگ(ن) غیر متوقع ناکامی کے بعد سخت بددل اور مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہے، اس لیے ان کا احتجاج ’جذباتی‘ تھا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قدرے مطمئن نظر آئے، کیونکہ ان کا سیاسی کردار بہرحال مسلم لیگ(ن) سے مختلف ہے۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بارے میں سیاسی پنڈت کہہ چکے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے نت نئے مطالبات ’’تحفظات‘‘ کی صورت سامنے آتے چلے جائیں گے۔ اس کا پہلا مظاہرہ متحدہ قومی موومنٹ، سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی پر ’’تحفظات‘‘ کی صورت کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی لفظی گولا باریوں پر عمران خان تلواروں کو میان میں رکھنے کا حکم صادر کرچکے ہیں۔ حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی و مقامی قیادت اور نامزد گورنر سندھ کا کردار بہرحال بڑا دلچسپ ہوگا۔ عمران خان کے حلف اٹھانے سے قبل دوسری اہم اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا روٹھ جانا بھی بنی گالہ میں لرزہ پیدا کرگیا، تاہم کسی نہ کسی طرح انہیں منالیا گیا۔ لیکن یہ ابھی شروعات ہے۔ عمران خان کے منشور کے پہلے 100دن میں کیے جانے والے ابتدائی وعدے کس شکل میں آگے بڑھتے ہیں، اس پر قریباً ’دنیا‘ بھر کی نظر ہوگی۔ بادی النظر قوی امکان یہی ہے پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت پہلے تین مہینوں میں ایسے اقدامات کو ترجیح دے گی، جس میں کم ازکم اپنی اتحادی جماعتوں کو طویل المیعاد منصوبوں کے لیے مطمئن کرسکیں۔
قومی اسمبلی کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں سیاسی ہنگامہ آرائیوں کے مظاہرے بہت کم دیکھنے کو ملیں گے، تاہم وفاق اور پنجاب سیاسی اکھاڑے کا منظر ضرور پیش کرتے رہیں گے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اگر اپوزیشن کو موقع فراہم نہیں کرتی تو عمران خان کو زیادہ دشواریوں کا سامنا نہیں ہوگا، لیکن اصل بات یہی ہے کہ کپتان کو ’’اصل چیلنج خود‘‘ سے ہے۔ ماضی کی طرح ناقابل عملیات کی غیر منطقی توجیہات (یوٹرن) بنالینا اب ممکن نہیں ہوگا۔ راقم انہی صفحات میں متعدد بار مشورہ دے چکا تھا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو ماضی کی سیاست چھوڑ کر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا شروع کردی ہے۔ خاص کر عمران خان نے زرداری اور بلاول کے ساتھ تقریب حلف برداری میں خود ہاتھ ملاکر تصویر بھی بنوائی جو ایک مثبت رویہ تھا۔ عمران خان نے شہباز شریف سے بھی ہاتھ تو ملایا لیکن ان کی آنکھوں کی طرح دل بھی نہیں مل سکے۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل میں کردار بڑا اہم ہوگا اور شنید یہی ہے کہ وہ مزاحمتی سیاست میں ٹھہراؤ کا مظاہرہ کرے گی، جس کی ایک جھلک قومی اسمبلی میں اسد قیصر کی کامیابی کے بعد بطور احتجاج اپنی نشستیں نہ چھوڑنا اور مسلم لیگ(ن) کی طرح شدید ردعمل نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن کے باہر ریاستی اداروں کے خلاف نعروں سے بھی لاتعلقی کا اعلان پی پی پی کی سیاست کے رخ کا تعین کررہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و نومنتخب عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ الٰہ دین کا چراغ نہیں ملے گا کہ اُسے رگڑتے ہی اہم مسائل حل ہوجائیں۔ دیکھنا ہوگا کہ انہیں اقتدار تو مل گیا، کیا اختیار بھی ملے گا۔ اس حوالے سے وقت کے ساتھ گرد بھی چھٹتی چلی جائے گی کہ قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان میں عمران خان کس قدر بااختیار ہوں گے۔ ریاست مدینہ کی طرح مثالی ریاست کی جانب ان کا پہلا قدم کب اور کس طرح اٹھتا ہے۔ اس کا انتظار یقیناً سب کو ہوگا۔ ریاست مدینہ کی مثال کی پہلی اینٹ کب رکھی جائے گی اس کا انتظار تو پاکستانی قوم 71 برس سے کررہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سعادت عمران خان کے ’’حصے‘‘ میں آتی ہے۔ ذاتی طور پر میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ کیونکہ یہ عمران خان کے سیاسی سفر کا پہلا جنکشن ہے، اس لیے انہیں کئی بار استثنیٰ بھی دینا ہوگا۔ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے اور جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس پر جس جس کو یقین ہے، انہیں عمل پیرا ہونے کی ضرورت زیادہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12816

ٓٓ حق ا ور اِ نصاف کی جیت…………. فرہاد خان

کہتے ہیں کہ جب ارادے مصمم اور پختہ ہوں تو ہر طوفان ،ہرمشکل اور ہر مصیبتوں کا مقابلہ ممکن ہے ، عزم عالیشان سے ہر بازی جیتی جاسکتی ہے اور اگر آپ حق اور راہِ راست پر ہیں تو مشکلات و مصیبتوں کے انبار کے باوجود حق اور سچ کی آخر فتح ہوہی جاتی ہے اور جھوٹ ،مکاری،فریب کا آخر کار ایک دن پردہ فاش ہوہی جاتا ہے ۔ عمران خان کی تقریبا اکیس سال کی جہدوجہد اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اگر اپ سچے ہیں ،دل میں ملک اور اس کے باسیوں کی فکر ہے تو ہزاروں مصائب اور مشکلات کے باوجود حق کی فتح یقینی ہے ۔اسی عزم و ہمت کے ساتھ یہ شخص اپنی تمام تر آسائشات اور چین و سکون چھوڑ کر ملک کی بقا اور اس کی فلاح کی خاطر سیاست کی کھٹن راہ کا انتخاب کرتا ہے ، یہ اگر چاہتا تو اس پُرخار کارزار میں آنے کی بجائے اپنی زندگی آرام و سکون سے گُزار دیتا ، کیونکہ اللہ کا دیا اس کے پاس سب کچھ تھا اپنی محنت کے بل بوتے عزت اور شہرت اس کے قدموں میں تھی مگر، اسے ملک کی فکر تھی ملک کے باسیون کی ابتر حالات پر افسردگی تھی اور یوں اپنی تمام تر اسائشات چھوڑ کر ملک سنوارنے اور نئے پاکستان کی اُمید لئے سیاست میں قدم رکھ لیتا ہے اور یوں پُراسائش زندگی سے پُرخار سفر کی جانب روانہ ہوجاتا ہے ۔ابتدا میں اس کی ہر جگہ جگ ہنسانی ہوتی ہے ، طعنے دیئے جاتے ہیں ، کرکٹر سے سیاست وارد ہونے پر تنقید در تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں مگر یہ پرُعزم نوجوان اگے بڑھتا رہتا ہے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانِب منزل مگر ۔ ۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا ۔
اس عزم و حوصلے کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی ، اس عزم کو ابھی بیچ راستے ہزاروں مصائب و مشکلات سے ٹکرانا تھا ، اور ابھی سالوں پر محیط مشکلات اس کے منتظر تھے مگر عزم و حوصلے و ہمت کی زندہ مثال اس شخص نے یہ تہیہ کرہی لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ملک کی خاطر جینے مرنے میں کوئی حرج نہیں ، برسوں نے جاری ظلم و جبر کا اخر ایک دن احتساب ہوہی جائے گا ،ظلم کی اندھیر نگر ی کب تک چلے گی ، حق و سچ کا روشن دن طلوع ہونے میں ابھی دیر ہے مگر ایک نہ ایک دن صبح روشن اس قوم کی منتظر ہوگی۔ اور یوں سالوں کی انتظار اور،طویل جہدوجہد کے بعد بالااخر حق اور سچ کی جیت کا وقت ان پہنچتا ہے،کسے معلوم تھا اقتدار کے بڑے بڑے بُت پاش پاش ہونے والے ہیں ، طاقتور پہلی بار انصاف کے کٹہرے میں آنے والے ہیں اور نظام کی ابتری کے زمہ داروں کا احتساب ہونے والا ہے ، کسے معلوم تھا کہ ایک شخص کی ہمہ جہت جہدوجہد ایک دن رنگ لانے والا ہے اور بڑے بڑے سورما زمیں بوس ہوجائینگے ،تبدیلی اور نئے پاکستان کا خواب پورا ہونے کو ہے۔ اس کاروان کی عزم و ہمت کو سلام کہ جن کی بدولت ملک کے مفلول الحال عوام کو آگاہی کی تعلیم ملی ، حق شناسی کادرس ملا اور اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہونے کی ترغیب ملی ، اس عزم و حوصلے کے مینار اور اس کی ٹیم کو داد دیجئے کہ ہزاروں حیلے بہانوں اور لاکھ جتن کے باوجود ان کے عزم کو دبایا نہیں جاسکا ، اور اس سچائی اور حق گوئی کا کیا کہنا کہ جسے لاکھ جتن کے باوجود پست نہیں کیا جاسکا اور شکست نہیں دی جاسکی اور یون حق و انصاف کی فتح بالااخر ممکن ہوگئی۔
کئی سالوں پر محیط اس جہدوجہد کے بعد اب عملی سفر کا آغاز ہوا چاہتا ہے ملک کے لوگون نے کپتان اور اس کی ٹیم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اوراب بقول عمران خان صاحب ملک کی فلاح و بہود کے لئے عملی جہاد کا وقت ہے ۔ اور اس جہاد کے لئے عزم وہمت و بلند حوصلہ درکارہے ۔ عمران خان کی بیس سال سے زائد جہدوجہد کا محور بھی یہی ہے کہ ملک کو کیسے ظلم و جبر کے نظام سے نجات دلائی جائے ، ملک کے مکینوں کی خوشحالی کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں اور اس کے لئے ایمانداری اور نیک نیتی سے اگے کا سفر کرنا ہے ، سالوں پر محیط اس جہدوجہد کا پھل اقتدار کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کو مل چکی ہے اور لازم ہے کہ اب ملک کی خاطر عملی اقدامات کا بھی آغاز ہوناہے ۔ ارادے نیک اور عزم و ہمت جوان ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں اور بلاشبہ عمران خان کے پاس باصلاحیت لوگون کی ایک اچھی ٹیم موجود ہے جو ملک کو درپیش تمام مشکلات کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔ ضرروت اس امر کی ہے کہ پورے ملک کے نظام کو صحیح ٹریک پر لانے اور بگڑے نظام کی درستگی کے لئے ہر وہ اقدامات کئے جائیں جو کہ ملک کی بقا و سلامتی اور اس کی خیرخواہی و خوشحالی کے لئے ناگزیر ہیں ۔ ملکی ستر سالہ تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ ملک اور اس کے باسیوں کے ساتھ تقریبا ہر دور میں بااثر طبقات کے ہاتھوں استحصال کا سامنا رہاہے ۔ یہان کے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے ، خان ، نواب، چوہدری اور بے شمار طاقتور لوگون نے عام عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ، ملک کے چند فیصد سفید پوش طبقہ دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے جارہے جبکہ عوام کی اکثریت مفلول الحال زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظلم کے نظام کے خلاف بغاوت اور ایک نئے پاکستان کی امید لئے ملک کے باسیوں نے خان صاحب اور اس کی ٹیم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، توقعات کی ایک لمبی فہرست ہے اور خان صاحب اور اس کی ٹیم کا امتحان ابھی شروغ ہوا چاہتا ہے ۔ جناب عمران خان صاحب وزیراعظم کے عہدے کا حلف اُٹھانے والے ہیں اور اس کی ایمانداری اور دیانت داری پر شک نہیں ،عوام کی اکثریت کا اس پر اعتماد اس بات کا مظہر ہے کہ انصاف کے نام پر اقتدار سنھبالنے والی نئی حکومت عوام کے توقعات پر پورا اُترنے کی بھر پور کوشش کرے گی ۔ عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائیگی اور برسون سے تبدیلی کی آس لگائے بیٹھی عوام کو حقیقی تبدیلی کے اثرات جلد دکھائی دیں گے ۔امید ہے کہ نرگس کی بے نوری کے دن ختم ہونے والے ہیں اور چمن میں ہر سو بہار ہی بہار ہوگی ۔
ہزارون سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔
بڑی مشکل سے ہوتی ہے چمن میں دیداور پیدا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12812