بزمِ درویش ۔ نیا انسان ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ نیا انسان ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں نے گھر کا دروازہ کھولا تو ایک حیران کن منظر میرا منتظر تھا میں ایسے خوشگوار منظر اور ملاقاتی کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا میرے سامنے خرم شہزادہ بلکل مختلف روپ میں کھڑا تھا شہزادے کو پہچاننے میں مجھے کچھ وقت لگا بلکہ شہزادے کے بولنے پر جب اُس کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی تو میری آنکھوں میں حیرت اور آشنائی کی چمک اتری سر پر درویشوں والی پگڑی چہرے پر داڑھی مبارک مونچھیں بلکل صاف سفید کپڑوں اور کندھے پر رومال ڈالے خرم شہزادہ مجھے حیر ت میں مبتلا کر چکا تھا خرم شہزادہ مجھے گرم جوشی سے بغل گیر ہو چکا تو میں اُس کو لے کرڈرائینگ روم میں لا کر نرم گداز صوفے پر بیٹھا دیا اور گرم جوش آواز میں کہا یار شہزادے یہ تم نے تو واقعی مجھے بہت بڑا سرپرائز دے دیا ہے کہاں تم جوان خرم شہزادہ زندگی کے رنگوں سے بھر پور جوان جوشیلا اور کہاں یہ درویش عاجز شہزادہ تو خرم بولا جناب میں شہزادہ خرم نہیں بلکہ صوفی خرم بن چکا ہوں آپ مجھے اب صوفی کے نام سے بلائیں گے تو بہت خوشی ہو گی میں خرم کی اِس تبدیلی کا راز جاننے کے لیے بہت بے تاب ہو گیا تھا
یہاں وہ خرم شہزادہ جو دن رات اپنی تنی مونچھوں کو تیل میں ڈبو کر اور چمک دار نوکیلا رکھتا تھا اور کہاں یہ کہ مونچھیں صاف کہاں کانوں میں سونے کی مرکیاں گلے میں سونے کا بھاری لاکٹ ہاتھوں میں سونے کی مہنگی انگوٹھیاں مہنگے پتھروں کے ساتھ کلائی پر راڈو کی سنہری مہنگی گھڑی منہ میں سرخ پان جو بات بات پر ابالے مارتا سفید لٹھے یا بوسکی کا کڑکڑ کر تا سوٹ‘ پاؤں میں گولڈن تار وں والا سنہری کھسہ جس کی نوکیلی نوک اور جب شہزادہ چلتا تو گھسنے سے آواز نکلتی اُس آواز کے ساتھ خرم کی چال میں شاہانہ سٹائل اور خاص بانکپن آجاتا جیسے پنجاب کی دھرتی کا بانکا سجیلا جوان زندگی اور جوانی کو خوب انجوائے کر رہا ہوں دیکھنے والے رک کر شہزادے کی جوانی انداز لباس اور سونا جو پہنا ہوتا اُس کے رنگوں میں غرق ہو جاتے زمیندار ہونے کی وجہ سے چھوٹی موٹی بدمعاشی شروع کی او ر پھر لباس چال ڈھال لوگوں نے بہت بڑا بدمعاش سمجھنا لیا خرم نے لوگوں پر اپنا رعب دیکھا تو اور رنگ پکڑتا گیا اور پولیس والوں سے دوستی لگا لی اور باقاعدہ بد معاش بن گیا جس کی شہرت گلی سے محلے اور شہر میں پھیلتی چلی گئی خرم جب بد معاشی میں ابھی قدم رکھ لیا تھا تو کسی لڑکی سے عشق میں مبتلا ہو گیا لڑکی کسی اور کے عشق میں گرفتار تھی
خرم نے اُس کو رام کر نے کی بہت کو شش کی لیکن اُس لڑکی کے دل و دماغ پر کسی دوسرے کا جادو چڑھا ہوا تھا وہ قابو نہیں آئی تو خرم نے بابوں درویشوں کے پاس جانا شروع کر دیا اِس کا کوئی دوست مجھے جانتا تھا جب یہ مختلف آستانوں پر ماتھا رگڑ رہا تھا تو محبوب کی تلاش میں میرے پاس بھی آیا خوش مزاج رنگیلا شخص تھا باتوں کا آرٹ خوب جانتا تھا خوب باتیں کر کے مجھے متاثر کر نے کی کوشش کر تا کبھی کبھار یہ بھی پوچھتا سر یہ فقیری درویشی کیا ہے مجھے کبھی اِس کی سمجھ نہیں آئی دوسرا میں جوان ہو ں خوبصورت دولت مند بھی ہوں اِس لیے میں جوانی دولت کو خوب انجوائے کر نا چاہتا ہوں ہاں بڑھاپے میں جاکر داڑھی بھی رکھوں گا نماز بھی شروع کر دوں گا ابھی مجھے نماز روزے فقیری درویشی سے کچھ نہیں لینا آپ مجھے کوئی ایسا آسان عمل وظیفہ بتائیں کہ جس لڑکی پر یا جس بندے پر ہاتھ رکھوں یا میرا دل آئے وہ میرا غلام ہو جائے لڑکی کے عشق میں دھکے کھا رہا ہوں وہ بھی میری کنیز بن کر قدموں میں بیٹھ جائے میں اُس کا حال جاننا چا ہتا تھا یہ جوانی کے عشق کے بخار میں مبتلا ہے اِس پر اِس وقت کوئی نصیحت لیکچر اثر نہیں کرے گا اِس کے سر پر جو عشق کا بھوت سوار ہے وہ وقت گزرنے کے بعد ہی نارمل ہو گا
خرم شہزادہ چند مہینے تو محبوب قدموں میں کرنے کی کوشش میں میرے پاس آتا رہا لیکن جب نتیجہ اِس کی مرضی کا نہیں آیا تو اِس نے میرے پا س آنا کم کر دیا پھر دوسرے کسی بابے کے پاس جانا شروع کر دیا پھر یہ میرے پاس آنا بلکل بند ہو گیا آج پانچ سال گزرنے کے بعد بلکل بدلے ہوئے بد معاش نہیں درویشی لباس میں میرے سامنے کھڑا تھا میں جاننے کو بے تاب تھا جس کی وجہ سے شہزادے کی کایا ہی پلٹ گئی چائے لوازمات کے دوران میں نے شہزادے سے کہایا ر مجھے تمہارے بدلے رویے اور لباس داڑھی مبارک سے بہت خوشی ہو ئی ہے تو شہزادہ بولا بلکل آپ کو بتا تا ہوں میری حالت کیسے بدلی جب میں عشق میں ناکام ہوا تو ایک بابے کے پاس بہت جاتا تھا کبھی کبھار اُس کے پاس جاتا ددل کو بہت سکون ملتا اُس درویش نے مجھے سید ذات پاکوں کے مقام شان کے بارے میں بتایا تو میں سید لوگوں کی بہت عزت کر نے لگا
اِسی دوران محلے میں ایک سید زادی کو کسی نے تنگ کیا جب مجھے پتہ چلا تومیں دیوار بن کر سامنے کھڑا ہو گیا کہ یتیم سید زادی کے ساتھ اگر کسی نے غلط بات کی تو اُس کی جان لے لوں گا لوگوں نے سنا تو طعنے مارے کہ شہزادے جیسا بد معاش اب سید زادوں کی شان اور مقام ہمیں بتا ئے گا اپنی حالت حرکتیں نہیں دیکھتا لوگوں کی باتیں طعنے مجھے کھا گئے فوری طور پر بد معاشی ترک کر دی داڑھی رکھی اور بابے کے پاس جا کر بیعت ہو گیا پانچ وقت کا نمازی ہو گیا پھر احترام سے اس سید زادی کی شادی کرا دی اُس سید زادی کی خدمت احترام نے میری زندگی بدل دی اور میں بدمعاشی سے فقیری کے روپ میں آگیا جس دن سے توبہ کی اُس لمحے کے بعد آج تک کو ئی دانستہ گناہ نہیں کیا یہ سید وں کی عزت و احترام کا پھل ہے صوفی خرم دیر تک باتیں کر کے جپھی ڈال کر چلا گیا اور مجھے خوشگوار یاد دے گیا کہ اللہ جب کسی پر مہربان ہو تا ہے تو اُس کی زندگی میں ایک لمحہ واقعہ ایسا لاتا ہے کہ اُس کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے کاش ایسا نیک لمحہ ہماری زندگی میں بھی آئے اور ہم بھی سید خاندان اہل بیعت کی عزت مقام شان کو سمجھ سکیں ہم بھی بدل سکیں۔