سفید پیادے کالا وزیر ۔ تحریر: ظفر علی خان کراچی
شطرنج کے ماہرین کھبی بھی سفید فِیلہ، کالا گھوڑا، سفید پیادہ، کالا وزیر، کالا رُخ اور سفید بادشاہ پر نگاہیں مرکوز نہیں کرتے ان کے ذہنوں اور دماغ کے کونے کھانچوں میں اگلے کی کمزوری سمیت تختے کےخالی خانے گردش کر رہے ہوتے ہیں کہ مخالف کی کمزوری کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو اپنی منشاء پوری ہو سکے یعنی امخالف کا تختہ الٹانے کا موقع ملے۔
اب آتے ہیں زرا شطرنج سیاست کی طرف غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران مختلف سیاسی مہرے اس بساط کے الگ الگ مقامات پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چاہے اس میں پیسہ پھینک تماشا دیکھ ہو یا کھیل کے میدانوں میں بڑے بڑے اعلانات بہر کیف یہ حرکت مختلف، بلکہ متضاد سمتوں میں ہوئی ہے۔ شطرنج کے کھیل کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ بساط کا توازن اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے، جب ایک پیش رفت کا جواب دوسری طرف سے مل جائے۔ اور یہ مل بھی رہا ہے کیونکہ سیانے کہتے ہیں پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔
اب ہم رخ کرتے ہیں اصل منزل کی جانب جس کے لئے مجھے مختلف حوالے اور لمبی چوڑی تمہید باندھنا پڑی۔ چترال کی سیاست کا رخ کہنہ مشق سیاست دانوں کی سمجھ سے بھی کوسوں دور ہے اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے تو اتنے میں یہاں ایک کالے وزیر دوسری بار اپنے مست گھوڑے کو بے لگام چھوڑ کر صرف چابک پہ چابک لگاتے جا رہے ہیں تاہم اتنی بات تو سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار ہی نہیں، بلکہ آپ ہم سبھی محسوس کررہے ہیں کہ یہ حرکت بے وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کا کوئی مقصد ہے اور کچھ ایسا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا جو سیاسی منظر کی تبدیلی کا سبب بنے گا۔
؎
مگر ہمارے کہنہ مشق سیاست کے کھلاڑیوں یعنی شطرنج کھیلنے والوں کی سمجھ میں صرف کالا وزیر ہی محو پرواز ہے پر اسے کوئی پرکھنے کے لئے ہنوز سعی نہیں کی بس قائد کی تصویر والے نوٹوں کی گنتی میں وقت نازک کو برباد کرنے لگے ہیں۔ بہر حال اس نازک صورت حال کو اس دھرتی کا ایک کم فہم ابائی گاوں سے کوسوں دور کراچی میں بیٹھا ہوا یہ ناچیز ٹٹول کر یہ سمجھ سکا ہے کہ تیرے رخسار میں تل کا مطلب ہرگز بے مطلب نہیں یعنی ان امدادی رقوم کے پیچھے بڑی تبدیلی واقع ہونے والی ہے کیونکہ ہم نے بچپن میں اپنے بزگوں سے سنا تھا کہ کی بھیڑیا اپنے شکار جس میں ناکام ہوا ہو کھبی ادھورا نہیں چھوڑتا۔ اب بھیڑیا کون ہے کب کس حلیے میں حملہ اور ہوا تھا اور دوبارہ کس بھیس میں حملہ اور ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

