نیشنلزام : نظریہ جس نے دنیا بدل ڈالی ۔ جواد مجید (پہلی قسط)
آج کی جدید دنیا میں سیاست کے دو کیمپ ہیں، ایک وہ کیمپ ہے جو سخت ساختیاتی اصلاحات چاہتا ہے اسے “بایاں بازو” کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا وہ کیمپ ہے جو سماج کے مسائل کو روایتی نقطہ نظر سے ٹھیک کرنا چاہتا ہے اور سماجی تعلقات کو جوں کا توں یا پیچھے لے جانا چاہتا ہے اسے ہم “دایاں بازو” کہتے ہیں۔ ان دونوں سیاسی کیمپ کے اندر ہمیں چار اہم سیاسی نظریاتی مکتبِ فکر ہیں، جو لوگوں کو اس بارے میں رائے رکھنے کا اہل بناتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سے منظم ہونا چاہیے۔ بلکہ اگر ایک جملے میں کوئی آپ سے پوچھے کہ سیاست کیا ہے؟ تو آپ کا جواب ہونا چاہیے کہ یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ اپنے اردگرد کے معاشرے کو منظم ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لبرل ازم، سوشلزم، روایت پرستی اور قوم پرستی ان مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپکو دنیا کے ہر ملک میں ملیں گے، جو اپنے خیالات اور نظریات کے لیے سیاسی جدوجہد کرتے ہیں، اور یہ نظریاتی لوگ اپنے معاشرے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو باقی مکتب فکر سے بہتر سمجھتے ہیں۔ میں یہاں یہ بحث نہیں کرنے جا رہا کہ ان میں سے کون سا سیاسی نظام انسانوں کے لیے سب سے بہتر ہے، بلکہ میں آپ کو آج کی ترقی پذیر دنیا کے سب سے طاقتور قوت کے بارے میں بتانے کی کوشش کروں گا اور وہ ہے قوم پرستی جسے نیشنلزام بھی کہا جاتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری موجودہ دنیا میں قوم پرستی سب سے طاقتور خیال/نظریہ ہے اور تاریخی طور پر یہ ایک ایسا خیال /نظریہ ہے جس نے دنیا کو جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت پر تیار کیا اور دنیا کو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لپیٹ میں لے کر تاریخ کو بدل کر رکھ دیا اور ہماری جدید دنیا کو بڑی حد تک شکل دی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے بہت کم لوگ اسے حقیقی معنی میں سمجھتے ہیں۔ اور آج کی دنیا میں، یہ زمین پر سب سے غالب نظریہ ہے۔ قوم پرستی کو آسانی سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ کسی قوم (جس کی میں نے وضاحت اپنے پچھلے مضمون میں کی تھی) کے ساتھ شناخت کرنا ہے اور اس کے مفادات کے ساتھ لگاؤ اور وفاداری رکھنا ہے، اور یہ مؤقف رکھنا ہے کہ سیاسی اور قومی اکائی ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ یہ خیال پچھلی چند صدیوں کے دوران دنیا میں بہت سی انقلابات کا سبب بنا اور یہ انقلاب پہلے تو یورپ میں کلیسا اور بادشاہت کے خلاف ایا (کیونکہ کلیسا اور بادشاہ کے گٹھ جوڑ میں بڑی بڑی جاگیرین تھی) اور دوسری دفعہ افریکی ممالک میں یورپی استیمار اور نوابادیاتی نظام کے خلاف ایک طاقت ور قوت کے تور پر پیش ہوئی ، محقوم افریقی قوموں کی مزہمت نے ہمارے شعور اور موجودہ قومی ریاستوں کی حقیقت کو شکل دی، جو کہ اگر 400 سال پہلے کے حالات کے ساتھ مقابلہ کی جائے تو بالکل مختلف نظر آئے گی۔
لیکن آج کل دنیا بھر میں بہت سے قوم پرست تحریکوں کے کارکن دعوے کرتے ہیں، جیسے کہ یہ کہنا کہ ہم اس زمین پر پچھلے 5000 سال سے رہ رہے ہیں، کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 12000 سال سے۔ جبکہ ریاستی نصاب کی کتابوں کا اپنا بیانیہ ہے، پاکستان کی تشکیل کے حوالے سے، یہ تجویز کرتا ہے کہ پاکستان اسی دن وجود میں آیا جب محمد بن قاسم سندھ پر حملہ اور ہوئے تھے جو کہ بلاشبہ غلط ہے۔جدید قوم کے تصور کا چند صدیوں پہلے تک کوئی وجود نہیں تھا، یہ کہنا یہ نہیں ہے کہ قومیں اب موجود نہیں رکھتی، قوم ایک معروضی، مادی حقیقت ہے۔ میرا یہ بیان ان لوگوں کے لیے ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہزاروں سال سے اس زمین پر رہ رہے ہیں، یا ان پاکستانی “قوم پرستوں” کے لیے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اسی دن سے موجود تھا جب محمد بن قاسم نے سندھ کی زمین پر قدم رکھا اور راجہ داہر کو شکست دی۔ لیکن یہ سچ ہے، جدید قوموں کا چند صدیوں پہلے تک وجود نہیں تھا، اور لوگ اور سیاسی معاشرے اپنے آپ کو قوم کی بنیاد پر شناخت نہیں کرتے تھے جیسے کہ اپ سنتے ہونگے میں پشتون ہوں، میں فرانسیسی ہوں، میں سندھی ہوںں وغیرہ وغیرہ بلکہ وہ اپنے قبیلے،سلطنت اور بادشاہوں کے ذریعے اپنی شناخت رکھتے تھے، کیونکہ اس وقت پورا سیاسی معاشرہ ان اشرافیہ سے جُڑا ہوتا تھا نہ کہ کسی قوم سے۔ اور دوسری چیز جس سے وہ لوگ جُڑے ہوتے تھے وہ زمین تھی، مگر وہ زمین جس سے پہلے کے لوگ جُڑے ہوتے تھے، اس کی سرحدیں سخت نہیں ہوتی تھیں اور ان علاقوں کے اختتام کی تعبیر مختلف ہو سکتی تھی۔ مثال کے طور پر آئیے افغانستان کی بات کرتے ہیں، جب ہم افغانستان کے بارے میں بات کر رہے ہوں تو یہ 1500 سال پہلے کیسا تھا؟ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کوئی بھی اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہے اور ان کے کہنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ لیکن جدید وقتوں تک، افغانستان کے تصور کے طور پر کوئی واضح ملک، سرحدوں کے ساتھ موجود نہیں تھا، جس کی اپنی حکومت ہو جو آ سکتی ہو اور جا سکتی ہو، جبکہ اس کی سیاسی اکائی پھر بھی قائم رہے۔ اس سے پہلے کہ افغان قوم وجود میں آئی، یہ مختلف سلطنتوں کے گرد مرکوز تھا، جیسے کہ کشان سلطنت، ساسانی سلطنت، اور لوگ ان بادشاہتوں کے رعایا ہوتے تھے، کسی “افغانستان” نامی ملک کے شہری نہیں۔
اس وقت حکمران خاندان سے بالاتر کوئی خودمختار سیاسی ادارہ موجود نہیں تھا۔ دوسری طرف، ایسے معاشروں کے علاوہ، تاریخ میں بعد میں ایجیئن جزیرہ نما میں کچھ قبائل تھے جو خود کو یونانی کے طور پر پہچانتے تھے اور اپنی شہری ریاستوں سے جُڑے ہوتے تھے اور آپس میں لڑتے بھی تھے، مگر جب باہر سے حملہ آور آتے تو یہ شہری ریاستیں مل کر ان غیر مقامی حملہ آوروں کے خلاف لڑتیں، اور ان حملہ آوروں کی اجنبیت کو دیکھ کر ان یونانیوں کو اپنی باہمی یکسانیت کا احساس ہوا کرتا تھا جیسے کہ مشترکہ ثقافت، مشترکہ زبان اور مشترکہ زمین جس کے لیے لڑا جا سکے۔ یہ یکسانیت جنگ کے ذریعے محسوس کی گئی۔ اور جب یہ یونانی بولنے والے اکٹھے ہوئے تو انہوں نے جدید یونان کی قوم تشکیل دی، اور جب اپنیے الگ ہونے کا احساس بہت زیادہ ہوا تو 400 سالہ عثمانی حکمرانی سے آزادی حاصل کر کے 3 فروری 1830 کو آزاد ریاست بنی۔ ایسی طرح الجزائر کے عرب انقلابیوں نے فرنسیسی نوابادیاتی نظام اور ظلم سے آزادی حاصل کی.یہ ایف ایل این(FLN)تنظیم تھی جس کی قوم پرست جدوجہد سے الجزائر فرنسیسی بربریت سے آزاد ہوا۔

