قوم: نقل و حرکت زندگی اور جمود موت ہے۔ جواد مجید
اگر آپ چھترار سے ہیں تو آپ نے “قوم” کا لفظ یقیناً بہت بار سنا ہوگا، اور آج کی دنیا میں جب سیاست کا محور یورپ سے ایشیا تک “قوموں کے مفادات” کے تصور کے گرد گھوم رہا ہے، تو میں نے بھی کئی بار اپنے چھتراری اور دوسری اقوام کے بھائیوں اور بہنوں سے سنا ہے کہ فلاں “اسماعیلی قوم” ہے، یا فلاں “سنی قوم و شیعہ قوم” سے ہے، یا میں فلاں “خوسوقت قوم”، “زونت قوم”، یا “یوسف زائی قوم” سے ہے۔ لیکن اس دنیا میں جہاں سیاست قوم کے تصور کے گرد گھومتی جا رہی ہے، کیوں نہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ “قوم” کا مطلب دراصل کیا ہے؟ قوم کے گرد گھومتی سیاست اچھی ہے یا بری، یہ بحث کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن جب اپنے ارد گرد دوستوں اور ساتھیوں سے بار بار یہ لفظ سنتا ہوں تو دل کرتا ہے کہ اس پر کچھ لکھا جائے۔
قوم صرف اور صرف قبائل سے نہیں بنتی، جیسا کہ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے یونیورسٹی لیول کے کچھ محترم پشتون بھائی جو خود کو بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کا وارث کہتے ہیں، یا چھترار میں بھائی اور بہنیں جو آج بھی اس خیال سے باہر نہیں ائے اور خود کو باقی چتراریوں سے کوئی الگ قوم سمجھتے ہیں، حالانکہ ان میں اور دوسرے چتراری لوگوں میں وہی زبان، وہی رسم و رواج، اور وہی طور طریقے موجود ہیں جو کسی ایک قوم میں موجود ہوتے ہیں۔ قوم نہ کسی خاص مذہب یا فرقے کی بنیاد پر بنتی ہے، اور نہ ہی قوم کسی مخصوص قبیلوں سے بنتی ہے-
جیسے بی جے پی کے زیرِ قیادت بھارت میں، جہاں آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ ہندو “قوم” خطرے میں ہے کیونکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ایک ایسا جھوٹ جو بھارتی میڈیا میں نہایت شدّت سے پھیلایا گیا ہے یا جیسے پاکستان کے ایک بااثر طبقے میں یہ نظریہ رائج ہے کہ مسلمان ایک مکمل طور پر الگ قوم ہیں، اور ان کی قوم صرف مذہبی شناخت پر قائم ہے۔
اگر آپ تاریخ میں مختلف جغرافیائی علاقوں میں بسنے والے انسانوں کی ارتقائی مرحلوں کو دیکھیں تو ایک چیز آپ کو مشترک نظر آئے گی، اور وہ ہے “نقل و حرکت”۔ تاریخ میں ہر گروہ، ہر قبیلے نے کسی نہ کسی وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کی ہے۔ کبھی جنگوں سے بچنے کے لیے، کبھی بہتر زندگی کی تلاش میں، کبھی معاشی وجوہات کی بنا پر، کبھی جنگوں کرنے کے لیے، اور کبھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب۔ جب مختلف علاقوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی جغرافیائی جگہ پر آ کر بس جاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک مستحکم انسانی برادری میں ڈھل جاتے ہیں جو کہ خانہ بدوش نہیں رہتی، ان کی طرزِ زندگی خانہ بدوشی سے نکل کر آبادی کی صورت مستقل سکونت کی طرف جاتی ہے۔ ایسے لوگ جو مختلف پس منظر سے آئے ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ان کے درمیان مشترکہ معاشی مفادات پیدا ہوتے ہیں، ان کی الگ ثقافت ایک دوسرے سے ملاپ کے بعد ایک مشترکہ ثقافت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے، اور ایک جیسا نفسیاتی ڈھانچہ ایک مشترکہ علاقے میں جنم لیتا ہے۔
تو جب ہم کسی “قوم” کو تاریخی نَشو و نُما سے بنتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ عمل درج ذیل عناصر پر مشتمل ہوتا ہے جیسے ایک مستحکم برادری جو خانہ بدوش نہ ہو، ایک مشترکہ علاقہ، مشترکہ زبان، مشترکہ ثقافت، معاشی یکجہتی(ظاہر ہے ایک سندھی ایک سندھی کے ساتھ تجارت بہتر کر سکتا ہے)اور مادی حالات سے پیدا ہونے والی نفسیاتی ہم آہنگی یہ سب مل کر ایک قوم بناتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر وقتی طور پر موجود نہ ہو تو قوم کا وجود ختم نہیں ہوتا، لیکن اگر صرف ایک عنصر موجود ہو اور باقی سب نہ ہوں، تو صرف اسی بنیاد پر کسی گروہ کو قوم نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر کچھ سندھی لوگوں کو صرف شینا زبان بولنے پر گلگتی نہیں کہا جاسکتا اور دوسری طرف جیسے بلوجستان میں بلوچ قوم میں ایک مشترکہ زبان نہیں ہے بلوچ قوم میں دو بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں براہوئ اور بلوچی (دہواری اور باقی زبان بولنے والوں کی تعداد کم ہے)لیکن اس کے علاوہ زیادہ تر چیزیں یکسان ہیں اس
یَگانَگی کی وجہ سے دونوں زبانیں بولنے والے ایک ہی قوم کے باشندے ہیں۔
پنجابی، چاہے وہ سکھ ہوں، ہندو یا مسلمان وہ سب پنجابی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ پشتون، چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی وہ سب ایک ہی پشتون قوم کا حصہ ہیں۔ چتراری، چاہے وہ کسی بھی قبیلے سے ہوں وہ سب کھو / قشقار / چتراری قوم سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ایک زبان، ایک ہی زمین، ایک ہی علاقہ میں تجارت، ایک جیسے مادی اور وقتی حالات کی وجہ سے نفسیاتی و زہنی اہمگی، خانہ بدوشی کی بجاۓ مستقل ابادی یہ و ساری چیزین ہیں جو ایک قوم بناتی ہے۔
ہمیں بچپن سے یہ پڑھایا گیا ہے کے
ہم ایک قوم ہیں لیکن کیا ہماری خوبصورتی اسی میں نہیں کہ ہم الگ ہیں؟

