آرٹیکل 225 کے برعکس پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی نااہلی کا آغاز، ایم این اے عبدالطیف چترالی کے بعد عمر ایوب سے جواب طلب
اسلام آباد( نمائندہ چترال ٹائمز)الیکشن کمیشن نے9 مئی کے کیس میں سزایافتہ پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی عبداللطیف چترالی کو نااہل قرار دیتے ہوئے انکی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5رکنی کمیشن نے عبداللطیف چترالی کی نااہلی کے کیس پر سماعت کی، انکے وکیل کمیشن میں پیش ہوئے۔ممبر خیبر پختوانخوا نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ دوسال سے زائد سزا پرممبر نااہل ہوگا، ڈی جی لاء کمیشن نے کہا کہ کمیشن کو سزایافتہ کیخلاف درخواستیں سننے کی ضرورت نہیں۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپکا مطلب ہے انکے خلاف ریفرنس یا درخواست سننے کی ضرورت نہیں؟ کمیشن کو موصول شدہ فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہے۔
عبداللطیف چترالی کے وکیل نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو آئین نوے دن کا وقت ہی نہ دیتا، کمیشن نے چیک کرنا ہے کہ کیا میں آرٹیکل63جی اور ایچ میں آتا بھی ہوں یا نہیں، عبداللطیف کے شریک ملزمان کی حد تک فیصلہ کالعدم ہو چکا ہے۔رکن خیبرپختونخوا نے کہا کہ عبداللطیف چترالی اشتہاری ہیں، کیا آپ اشتہاری کی جانب سے جواب جمع کرانے کے مجاز ہیں؟ وکیل نے کہا کہ انہیں ہائیکورٹ سے عبوری ریلیف مل چکا ہے۔رکن الیکشن کمیشن کے پی نے کہا کہ کہاں ہے وہ ہائیکورٹ کا آرڈر؟ کس دن عبوری ریلیف ملا بتا دیں، ہم منگوا لیتے ہیں۔وکیل نے کہا کہ موقع دیا جائے، جواب جمع کرا دوں گا، ممبر پنجاب نے کہا کہ آئین نے کمیشن کو پاور دی ہے کہ وہ سپیکرریفرنس پر فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کچھ دیر کیلئے محفوظ کیا،
بعدازاں عبداللطیف چترالی کی درخواست مسترد کرکے این اے 1 چترال کی نشست خالی قرار دے دی۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کے خلاف سالانہ گوشواروں سے متعلق کیس کی سماعت 5اگست تک ملتوی کرتے ہوئے ان سے نوٹس کا جواب طلب کر لیا۔عمر ایوب خان الیکشن کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔الیکشن کمیشن کے حکام نے بتایا کہ عمر ایوب کے وکیل نے پشاور ہائیکورٹ میں جھوٹ بولا۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے نااہل اراکین احمد بچھر، احمد چٹھہ، اعجاز چوہدری اور میاں اظہر مرحوم کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا، این اے 66 وزیر اباد، پی پی 87 میانوالی اور این اے 129 لاہور میں ضمنی انتخاب کیلئے پولنگ 18 ستمبر کو ہوگی۔
آرٹیکل 225 کے برعکس پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی نااہلی کا آغاز
اسلام آباد(سی ایم لنکس)مختلف الزامات کے تحت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ایسا پہلی بار نہیں جب قانون سازوں کو آن کے آرٹیکل 225 میں درج طریقہ کار کے علاوہ نااہل قرار دیا جا رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونل کے سامنے پیش کی گئی انتخابی پٹیشن کے علاوہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔مارچ 2009 میں ججوں کی بحالی کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اعلیٰ عدالتوں خصوصاً سپریم کورٹ کی جانب سے ارکان اسمبلی کو جعلی ڈگریوں اور دوہری شہریت رکھنے کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت، سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں مسم لیگ ن کے متعدد ارکان اسمبلی کو مختلف بنیادوں پر نااہل قرار دیا گیا، سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
ن لیگ کے نہال ہاشمی،طلال چوہدری اور دانیال عزیز توہین عدالت کیسز میں گھر گئے۔ اب یہی سب کچھ پی ٹی آئی کو دیکھا پڑ رہا ہے اور پارٹی کے 2ایم این ایز ایک سینیٹراور ایک ایم پی ا ے کو 9مئی کیسز میں سزاؤں کی بنیاد پر نا ااہل قرار دیا گیا۔حال ہی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جمشید دستی کو کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے پر نااہل کیا گیا۔ الیکشن کمیشن اپوزیشن لیڈر عمر ایواب کی نااہلی کے معاملے کو بھی دیکھ رہا ہے۔سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں الیکشن کمیشن کو تین حلقوں میں دوبارہ گنتی کی اجازت کے بعد پی ٹی آئی کے دو ارکان اسمبلی کو ڈی سیٹ کر دیا گیا۔اس حوالے سے سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے جلد بازی میں کام کیا۔ آرٹیکل(63ون جی) کی سب سے مناسب تشریح یہ ہے کہ کسی رکن کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد الیکشن کمیشن اپنے طور پر ایسا نہیں کر سکتا، صرف اسپیکر کے ریفرنس پر سپریم کورٹ کی طرف سے سزا کو برقرار رکھنے کے بعد ایسے شخص کوممبر کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو عدالت نے نااہل قرار دیا تھا لیکن اپیل پر 1975 میں بھارتی سپریم کورٹ نے سزا معطل کر دی تھی اور وہ رکن اور وزیر اعظم رہیں۔ وقار رانا نے سوال کیا کہ اگر اپیل پر سزا کالعدم ہو جاتی ہے تو آپ کسی شخص کو کیسے نااہل کر سکتے ہیں؟دوسرا سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ کیسے فرض کر لیا ہے کہ ای سی پی کے تحت سزا کو برقرار رکھا جائے گا؟ الیکشن کمیشن جمہوری عمل کو نقصان پہنچارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ایک اور وکیل کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 225 بے کار ہو گیا ہے،پی ٹی ا?ئی کے وکیل ابوذر سلمان نیازی کا کہنا ہے ہمارے ارکان اسمبلی کے خلاف اپیلوں کے نمٹانے سے قبل کی گئی کوئی بھی کارروائی قبل از وقت اور قانونی طور پر غیر پائیدار ہوگی۔حتمی فیصلے سے قبل نااہلی کا نوٹیفکیشن انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

