پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور سرکاری رویّے ۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری
جس طرح ساری دنیا کے انسانوں کو موت کے برحق ہونے پر یقین و ایمان ہے، بالکل اسی طرح اب انسانی شعور میں یہ حقیقت بھی راسخ ہو چکی ہے کہ علم ہی ترقی، خوشحالی اور بقا کا واحد ضامن ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے علم کو اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنایا، ان کے افکار نے زمانے کا دھارا موڑ دیا۔ انہوں نے جہالت کے اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلائے اور اپنی محنت و تدبّر سے زمین کے خزانوں کے دروازے کھول دیے۔ آج وہی قومیں اپنی تہذیبی برتری، سائنسی قوت اور فکری بالادستی کے بل پر دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔
دوسری طرف وہ قومیں جنہوں نے علم کو اہمیت نہیں دی، وہ زوال، محکومی اور غربت کے اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئیں۔ ان کے خواب بکھر گئے، ان کی بقا سوالیہ نشان بن گئی، اور ان کا وجود محض گزرے ہوئے وقت کی ایک دھندلی یاد بن کر رہ گیا۔
آج دنیا کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف علم دوست قوموں نے بےجان مشینوں کو ایسی عقل و شعور سے نوازا جو انسانی دماغوں سے ہزار گنا بڑھ کر ہے، اور یوں علمی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ جبکہ علم دشمن حکومتیں، سرکاری وسائل کے باوجود، ایسے معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں جہاں حکمران طبقہ اور رعایا کی اولاد ایک ہی صف میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔
اس اجتماعی فکری انحطاط کے دور میں ہمارے خطے کے چند مخلص افراد نے تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت سمجھا۔ مگر دوسری طرف، ماضی میں ہی نہیں بلکہ آج بھی، حکومتی عہدیداروں اور عوامی نمائندوں کی اکثریت یہ سمجھتی رہی کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے فارغ التحصیل نوجوان صرف سرکاری ملازمتوں کے ہی امیدوار ہوں گے۔ اگر یہی طرزِ فکر جاری رہا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان جیسے پہاڑی خطے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں سرکاری نوکریاں کہاں سے آئیں گی؟
ایوانِ اقتدار اور شاہی دفاتر میں براجمان افسروں کی زبان سے ان نصیحتوں اور تنبیہات کو بار بار سننے کے بعد جی بی کے چند باہمت نوجوانوں نے علم کے چراغ جلانے کا بیڑا اٹھایا۔ اگرچہ جی بی کی تنگ پہاڑی وادیوں میں کارخانے لگانا، صنعتی زون قائم کرنا اور معیشت کا پہیہ چلانامشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
ان فلک بوس پہاڑوں کے باسیوں کی دلی آرزو یہی تھی کہ کوہسار اور لبِ دریا کے مکینوں کی صلاحیتوں کو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے بچوں کی طرح نکھارا جائے، اور ان کی پوشیدہ قابلیتوں کو زمانے کے مطابق بیدار کیا جائے تاکہ وہ آنے والے کل میں مہذب دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔ مگر افسوس، ٹچ اسکرین کے اس جدید دور میں بھی سرکار ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہے۔
جن مخلص افراد نے نجی طور پر علم کے چراغ جلانے کے لیے اپنا خون پسینہ بہایا، ان کا گمان یہ تھا کہ حکومت ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کم از کم حوصلہ افزائی ضرور کرے گی، اگر ایوارڈ یا انعام نہیں تو کم از کم ’’ہدیۂ آفرین‘‘ کے چند الفاظ ہی سہی۔
کیونکہ یہ ادارے نہ صرف مستقبل کے معماروں کی تربیت کر رہے ہیں بلکہ حکومت کا بوجھ بھی بانٹ رہے ہیں۔ معیار کے لحاظ سے ان کا درجہ یہ ہے کہ خود سرکاری افسران کی اولادیں انہی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کو باعثِ فخر سمجھتی ہیں۔ لیکن سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود ’’اسٹینڈرڈ‘‘ کے لحاظ سے ان اداروں تک پہنچنا حکومت کے لیے اب بھی ایک خواب ہے۔
یہ بات نجی تعلیمی اداروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ ایک دن جب ان کی محنت، خلوص اور معیار عوامی اعتماد کی شکل اختیار کرے گا تو سرکار انہیں اپنا حریف سمجھنے لگے گی۔
اس رویے کو سمجھنے کے لیے شاید سماجیاتی بصیرت درکار ہے، کیونکہ سرکاری دل بغض و عناد کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، مگر عقل و شعور مسلسل یہ اصرار کر رہے ہیں کہ ہمارے بچوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی گود میں ہی ممکن ہے۔
یہ حقیقت سو توپوں کی سلامی کے قابل ہے کہ جب انسان خلوص اور دیانت داری کے ساتھ جہدِ مسلسل کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے تو پھر غیر تو کیا، اس کے بدترین مخالف بھی اس کے کردار کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔
بے شک گفتار کا کوئی غازی الفاظ کے ہیر پھیر سے شیر کو بکری اور ہاتھی کو چوہا ثابت کرنے کی کوشش کرے، مگر جب کردار کا سورج طلوع ہوتا ہے تو طنز و تمسخر کے بادل اور نفرت و تعصب کے سائے ایسے چھٹ جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ!

