شہزادہ رحیم الحسینی کی یومِ ولادت – تحریر: سردار علی سردارؔ
شہزادہ رحیم الحسینی 12 اکتوبر 1971ء کو سوئیٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ آپ پرنس کریم آغاخان چہارم کے سب سے بڑے فرزند ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ شہزادی سلیمہ آغاخان ہیں۔ شہزادہ رحیم نے 1990ء میں امریکہ کی نامور درسگاہ فلپس اکیڈمی اینڈوور سے ثانوی تعلیم حاصل کی، اور 1995ء میں براون یونیورسٹی سے تقابلی ادب میں بیچلر کی ڈگری مکمل کی۔ بعد ازاں 2006ء میں امریکہ کی نوورا یونیورسٹی سے مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی آپ نے اپنے والد گرامی کے ساتھ آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینا شروع کیں۔ خصوصاً ماحولیاتی اور موسمیاتی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے آپ نے نمایاں کردار ادا کیا اور متعدد ممالک کے دورے کر کے ترقیاتی منصوبوں کی براہِ راست نگرانی فرمائی۔
2014ء میں آپ کی شادی شہزادی سلویٰ سے ہوئی اور اس رفاقت سے شہزادہ عرفان اور شہزادہ سینان کی صورت میں دو معصوم کلیاں آپ کے آنگن میں مہکیں۔ آپ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ مل کر AKDN کے مختلف منصوبوں کی سرپرستی اور رہنمائی فرماتے ہیں۔ دنیا بھر کی اسماعیلی جماعت آج آپ کی یومِ ولادت کو نہ صرف ایک شخص کی سالگرہ کے طور پر مناتی ہے بلکہ اسے رسولِ اکرمؐ کی پاک نسل سے تعلق رکھنے والے امام کی سالگرہ کے طور پر روحانی و دینی جشن کا دن سمجھتی ہے۔ یہ دن محبتِ امام، تجدیدِ عہد و بیعت اور خدا کی بے پایاں نعمتوں پر شکر گزاری کا دن ہے۔
پرنس کریم آغاخان چہارم نے سات دہائیوں تک عالمِ انسانیت خصوصاً شیعہ امامی اسماعیلی مسلمانوں کی خدمت کی۔ آپ نے غربت، بے روزگاری اور محرومی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے AKDN کا ایک عظیم نیٹ ورک قائم کیا، جس کے ذریعے تعلیم، صحت اور روزگار کے بے شمار مواقع فراہم کیے گئے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور چترال میں بھی آپ کی خدمات ہمیشہ یادگار رہیں۔ آپ کا عزم یہ تھا کہ آپ کا جانشین انہی خصوصیات کا امین ہو۔ چنانچہ 11 فروری 2025ء کو لزبن میں وصیت کے مطابق شہزادہ رحیم الحسینی پچاسویں امام کی حیثیت سے مسندِ امامت پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنے والدِ بزرگوار کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم فرمایا۔
امام رحیم الحسینی نے امامت سنبھالتے ہی دنیا کو یہ پیغام دیا کہ آج کے مشکل دور میں انسانوں کو نئی زبانیں اور ہنر سیکھنے چاہئیں تاکہ وہ مستقبل کے بہتر فیصلے کر سکیں، ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوں، معذور اور بزرگ افراد کو ساتھ لے کر چلیں، اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کریں۔ یہ سنہری اصول آپ کے والد شاہ کریم آغاخان کے وژن کا تسلسل ہیں۔
آپ کی فیاضی اور دور اندیشی کا ایک روشن باب اس وقت رقم ہوا جب شام کے بحران کے دوران آپ نے سو ملین یورو کی امداد فراہم کی اور پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے دس ملین ڈالر کا اعلان فرمایا۔ شمالی علاقہ جات کے متاثرین کے لیے بھی امدادی سلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت دی۔ یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خدمتِ انسانیت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔
یقیناً آپ کی شخصیت میں رواداری، امن، محبت اور احترامِ انسانیت وہی اوصاف ہیں جو ورثے میں آپ کو ملے ہیں۔ اسی لیے آپ کے پیروکار اپنی صلاحیتوں اور ہنر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کی دعاؤں کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ پیر مشفق یارقندی نے فرمایا:
“ہر کرا حبِّ تو باشد در وجودِ آدمی
کی بود پروائی سیم و طالبِ زر یا امام”
ترجمہ: اے امام! جس دل میں آپ کی محبت جاگزیں ہو جائے، اس کے لیے پھر سونا چاندی کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔


