عملی کام کی اہمیت اور ہنرمند افراد – شاہ عالم علیمی
ہمیں تعلیم کی تعریف ہی غلط کرائی گئی تھی۔ ایک خاص سازش کے تحت عام آدمی کو فرسودہ کتابیں پڑھنے کے پیچھے لگادیا گیا۔
مغلوں کے دور میں ہندوستان دنیا کا سپر پاور تھا۔ دنیا کی 30 فی صد جی ڈی پی کا مالک تھا ہندوستان۔ اس ترقی کا راز یہ تھا کہ لوگ/شہری عملی کام سیکھتے تھے اور عملی کام کرتے تھے۔ جب پہلا انگریز مغل دربار میں آیا تھا تو اس کی کوئی وقعت نہیں تھی اس کو ہفتوں تک انتظار کروایا گیا۔ پھر جاکر وہ شاہ جہاں سے مل سکا۔ پھر انگریزوں نے ہندوستانیوں کو عملی کام سے نکال کر نوکریوں کے پیچھے لگادیا۔ ان کے نظام تعلیم کو تبدیل کردیا گیا۔
مغل دور میں لوگ بنیادی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ معدود چند لوگ اعلی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مگر یہ لوگ بھی کامل علم حاصل کرتے تھے آج کل کے پی ایچ ڈیوں کی طرح نہیں۔ باقی لوگ پریکٹکل کام سیکھ کر قومی پیداوار میں اپنا حصہ ڈال دیتے تھے۔ آج کل یہ جو نوکر بننے پر فخر کیا جاتا ہے اس کی وجہ انگریزی دور ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد لوگ انگریزوں کے نوکر بننے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں؛ اول سب کچھ لٹ چکا تھا۔ لوگ بے حال تھے۔ ایسے میں نوکری کا ملنا کسی خوش قسمتی سے کم نہ تھا۔ دوم انگریز کا نوکر شاہی نوکر ہوتا تھا۔ ہندوستانی ہونے کے باجود انگریزوں کا نوکر بن کر اپنے ہی لوگوں پر بادشاہ بن کر بیٹھ جاتا تھا۔
آج کل کے جو نوکر شاہی کی سج دھج ہے یہ روایت وہاں سے چلی ہے۔ اس زمانے میں ڈپٹی اور اسسٹنٹ کسی بادشاہ سے کم نہیں ہوتے تھے۔ بڑے بڑے جاگیروں پر قابض ہوتے تھے درجنوں زاتی نوکر رکھتے تھے۔
47ء میں جب گورے چلے گئے تو ہندوستان سے 45 ٹریلین ڈالر لوٹ کر چلے گئے۔ اور ہندوستان جو کبھی دنیا کا سپر پاور ہوا کرتا تھا اس کی جی ڈی پی بمشکل 1 فی صد رہ گئی تھی۔
کسی معاشرے اور قوم کی ترقی کا راز اس کے افراد کے عملی کام میں پوشیدہ ہے۔ اور عملی کام لوگ اس وقت کریں گے جب ان کو دو چیزیں دستیاب ہوں گی ؛ اول شعور اور دوم عزت اور احترام۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے ہمسایہ میں اس سکول سے پچھلے پچاس سال میں کتنے لوگ تعلیم حاصل کرکے نکل چکے ہیں؟ یقیناً ہزاروں۔ ان ہزاروں میں سے شاید چار پانچ لڑکیاں کہیں نرس اور استانی ہیں باقی برتن مانجھ مانجھ کر زندگی گزار چکی ہیں۔ اور ان ہزاروں لڑکوں میں سے شاید چند سو کہیں نوکر ہیں۔ باقی مزدور۔ وہ بھی بدترین قسم کی مزدوری کرکے زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن اسی اسکول کا دعوی ہوگا کہ وہ تعلیم مہیا کررہے ہیں۔
میں کتنے درجن ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اعلی قسم کے کاریگر تھے۔ مگر ان کو بتایا گیا تھا کہ اپنے بچوں کو “تعلیم” دے دو۔ وہ اپنے ادھے درجن بچوں کو تعلیم کے نام پر “استاد” کے پاس بھیجتا ہے ساتھ ان کو اپنے پاس سے پیسہ خرچہ بھی دے دیتا ہے۔
حالانکہ اس کو بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ استاد آپ خود ہی ہیں۔ اور تعلیم آپ کا یہ پیشہ ہے۔ یہی اپنے بچوں کو سیکھائیں۔ آپ اکیلے ہیں آپ اپنے چار پانچ بچوں کو یہ ہنر سیکھا کر ایک چھوٹی سی فیکٹری کا رسم بسم اللہ ادا کریں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوکر بننے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں جو بڑا نوکر بنتا ہے اس کو “صاب” اور “سر” کے خطابات ملتے ہیں۔ ایسی نوکریاں اکثر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کی جاتی ہیں۔
اس صاب کے دل و دماغ میں اس وقت گھمنڈ بھر جاتا ہے جب بیٹھے بیٹھے اس کو مفت کے خطابات ملتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ آپ کسی محفل میں کریں گے جب وہ “صاب” وہاں آئے گا اور ایک ساٹھ ستر سال کا بزرگ اٹھ کر اس کو عزت دیکر ایک خاص نشست میں جگہ دیگا۔
دوسری طرف جو آدمی جائز طریقے سے محنت کرکے حلال کماتا ہے اس کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہے۔ اس کو استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام ہمارے جہل زدہ معاشرے میں ہوتا ہے کسی دوسرے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔
مشرق وسطی میں جہاں میں رہا ہوں وہاں انسان کی عزت و تکریم برابر کی جاتی ہے۔ یورپ میں محنت کرنے والوں کی عزت کی جاتی ہے۔ یہی حال مشرق بعید کے ممالک میں ہیں۔
ہمیں محنت کی عظمت اور محنت کش کی توقیر کا احساس کرنا ہوگا۔ اور لوگوں کے اندر اس کے حوالے سے شعور پھیلانا ہوگا کہ محنت کرنا اور حلال کمانا اور کسی کام کو احسن طریقے سے سر انجام دینا ہی عزت ہے نا کہ ناجائز یا جائز طریقے سے صرف نوکر بننا۔
ہمارے لوگوں کو عملی کام کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مدرسے اور جامعات نوکر پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ اب المیہ یہ ہے کہ نوکریاں بھی ملتی نہیں جو نوکریاں موجود ہیں بڑی بڑی ڈگریوں والے خواتین و حضرات ان کو لینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر ہم عملی کام کی اہمیت اجاگر کرنے اور پھر ہنر مند افراد کی عزت اور احترام کروانے میں کامیاب ہوگئے تو اس دن ہمارا معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کرے گا۔

