سیاست کا گند اور معاشرتی منافقت – از قلم: نجیم شاہ
پاکستانی سیاست اور معاشرتی رویئے ایک ایسا گندہ تالاب ہیں جس میں ہر روز نئی بدبو اُٹھتی ہے۔ اِس تالاب کے مینڈک کبھی نعرے لگاتے ہیں، کبھی وعدے کرتے ہیں اور کبھی ضمیر بیچ کر نوٹ گنتے ہیں۔ عوام اِس تالاب کے تماشائی ہیں جو تالیاں بجاتے ہیں اور پھر اگلے دھوکے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اُصول، نظریہ اور وفاداری صرف تقریروں میں زندہ ہیں، عملی زندگی میں ان کی حیثیت کچرے کے ڈبے سے زیادہ نہیں۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کی مثال سامنے ہے۔سینیٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے تھی، اور یہ اکثریت خرید و فروخت کے ذریعے حاصل کی گئی۔ ایک تحریک انصاف اور ایک جے یو آئی کے سینیٹر نے اپنی پارٹی سے غداری کی۔ یہ غداری نہیں، یہ کاروبار ہے۔ یہاں ہر ووٹ کی قیمت ہے اور ہر ضمیر کی بولی لگتی ہے۔ یہ کوئی نئی واردات نہیں بلکہ پرانی بیماری ہے جو ہر دور میں پھیلتی رہی ہے۔ کل بھی یہی ہوتا تھا، آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
سینیٹ کے ٹکٹ کا کھیل دیکھ لیجیے۔ نظریاتی کارکن، جو برسوں پارٹی کے لئے قربانیاں دیتے ہیں، ہمیشہ دھکے کھاتے ہیں۔ ٹکٹ صرف اُن کو ملتا ہے جن کے پاس کروڑوں روپے ہوں۔ سینیٹر بننے کے لئے علم یا خدمت نہیں چاہیے، صرف دولت چاہیے۔ یہ نظام خود سیاسی جماعتوں نے بنایا ہے۔ وہی جماعتیں جو عوام کے سامنے اُصولوں کے گیت گاتی ہیں، اندرونِ خانہ نوٹوں کے ڈھیر پر فیصلے کرتی ہیں۔ اِس گندے کھیل میں اُمیدوار ہی نہیں بلکہ خود پارٹیاں بھی برابر کی شریک ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست گندی ہو چکی اور معاشرہ اِس گندگی کو قبول کر چکا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ اُن کے نمائندے خریدے گئے ہیں، مگر پھر بھی اُن کے جلسوں میں تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم وہی لوگ ہیں جو چور کو چودھری اور غدار کو رہنما بنا دیتے ہیں۔ ہم وہی لوگ ہیں جو ہر بار دھوکہ کھاتے ہیں اور پھر اگلے دھوکے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
ماضی کی مثالیں اُٹھا کر دیکھ لیں۔ بلوچستان اسمبلی میں راتوں رات وفاداریاں بدلی جاتی ہیں۔ پنجاب میں ’’لوٹا کریسی‘‘ کا چرچا ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں ضمیر کی بولی لگتی ہے۔ ہر دور میں یہی کھیل کھیلا گیا ہے اور ہر بار عوام نے خاموشی سے یہ تماشا دیکھا ہے۔ یہ خاموشی دراصل اجتماعی بزدلی ہے۔ ہم سوال نہیں کرتے، ہم احتجاج نہیں کرتے، ہم صرف تماشائی ہیں۔
معاشرتی رویئے بھی اسی بیماری کا شکار ہیں۔ ہم نے دولت کو معیار بنا لیا ہے، عزت کو طاقت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور ایمانداری کو کمزوری سمجھ لیا ہے۔ ہم نے اُصولوں کو مذاق بنا دیا ہے اور غداری کو معمولی بات سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار جب ماحول خراب ہوتا ہے تو اصل چہرے سامنے آتے ہیں اور ہم پھر بھی کچھ نہیں کرتے۔ معاشرہ اِس حد تک بیمار ہو چکا ہے کہ کرپشن کو ذہانت اور دھوکہ دہی کو کامیابی سمجھنے لگا ہے۔
یہ قوم ایک ایسے ہجوم میں بدل چکی ہے جو کرپشن، غداری اور منافقت کا کھیل دیکھ کر تالیاں بجاتی ہے۔ جب تک ہم سکوت کو نہیں توڑیں گے، جب تک ہم ان چہروں کو بے نقاب نہیں کریں گے، تب تک یہ کھیل جاری رہے گا۔ لیکن افسوس کہ ہم شور سے ڈرتے ہیں، سوال سے گھبراتے ہیں اور مزاحمت کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ خاموش رہنا ہی بہتر ہے، چاہے اس خاموشی کی قیمت نسلوں کو ادا کرنی پڑے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اِس گندے کھیل کو برداشت کرتے رہیں گے۔ کب تک ہم ان ’’چنیدہ لوگوں‘‘ کو عزت دیتے رہیں گے جو ہر بار اپنے ضمیر کو نیلام کرتے ہیں۔ خاموشی کو توڑ دیجئے، شور مچائیے، سوال اُٹھائیے تاکہ پتہ چل سکے کہ آپ نے کن لوگوں کو چن رکھا ہے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو یاد رکھیے کہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
سیاستدان وہی کرتے ہیں جو ہم انہیں کرنے دیتے ہیں۔ اگر ہم نے سکوت توڑ کر اُن کی اصلیت دکھا دی تو شاید اگلی نسل کو ایک بہتر پاکستان مل سکے۔ لیکن اگر ہم نے خاموشی اختیار کی تو یہ کھیل ہمیشہ جاری رہے گا اور ہم ہمیشہ تماشائی رہیں گے۔ یہی تماشائی پن ہماری سب سے بڑی منافقت ہے، اور یہی منافقت اس سیاست کا اصل ایندھن ہے۔

