پاک – آذربائیجان دوستی میں پاکستان میڈیا کلب کا کردار – تحریر: محمد رحیم بیگ
پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان دوستی کا رشتہ ہمیشہ سے لازوال اور خلوص و اعتماد پر مبنی رہا ہے۔ اس تعلق کو مزید مضبوط بنانے میں پاکستانی میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان میڈیا کلب، صحافیوں کی ایک ملک گیر تنظیم ہے جو صحافیوں کے حقوق، تربیت اور بین الاقوامی روابط کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیا خان کی قیادت میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد نے آذربائیجان کا دورہ کیا۔
دورۂ آذربائیجان کے دوران وفد نے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور وہاں کے رہن سہن، ثقافت، تہذیب اور سماجی نظم و ضبط کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ وفد نے آذربائیجان میں تعینات پاکستان کے سفیر جناب قاسم محی الدین سے بھی سفارت خانے میں ملاقات کی، جہاں دوطرفہ تعلقات کو عوامی سطح پر مزید مستحکم بنانے اور باہمی تعاون کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
سفیرِ پاکستان نے وفد کو آذربائیجان کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام مذہب، ثقافت اور تاریخی رشتوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
جہاں تک آذربائیجان کے عوام کا تعلق ہے، وہاں کے لوگ نہایت مہذب، شائستہ اور قانون پسند ہیں۔ صفائی ستھرائی کو وہاں قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر درخت سے ایک پتا بھی زمین پر گرجائے تو شہری اسے اٹھا کر کوڑا دان میں ڈال دیتے ہیں۔ عوامی مقامات، ہوٹلوں، دکانوں اور سڑکوں پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے۔ جگہ جگہ کوڑا دان اور “Smoking Area” کے نشانات لگے ہوتے ہیں۔ شاپر، ٹشو یا استعمال شدہ اشیاء کو زمین پر پھینکنا جرم سمجھا جاتا ہے۔
سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ گاڑی چاہے کتنی بھی تیز جا رہی ہو، اگر کوئی شہری سڑک پار کرنا چاہے تو ڈرائیور فوراً رک جاتا ہے۔ بازاروں میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں مخصوص پارکنگ ایریا میں کھڑی کر کے بازار میں داخل ہوتے ہیں۔ دکاندار سامان دکان کے اندر سجاتے ہیں، باہر تجاوزات کا کوئی تصور نہیں۔
آذربائیجان میں صرف ایک ہی جھنڈا نظر آتا ہے — قومی پرچم۔ وہاں جھنڈا بازی یا گروہی نمائندگی کے پرچموں کا کوئی رواج نہیں۔ عوام قانون کا بے حد احترام کرتے ہیں، اور یہی شعور ان کی سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کی تعمیر صرف حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر عوام قانون کی پاسداری کریں اور اپنی ذمہ داری نبھائیں تو ملک خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
آذربائیجان کے شہروں میں فوج یا پولیس کے دستے نظر نہیں آتے، نہ ہی ٹریفک اہلکار ہر موڑ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کہیں بدنظمی یا قانون شکنی دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں بطورِ پاکستانی ان قوموں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ملک کو خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے میں حصہ ڈالیں۔
ہمیں حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے خود بھی کردار ادا کرنا ہوگا — مثلاً صفائی کا خیال رکھنا، قانون کا احترام کرنا، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی، رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا، اپنی ثقافت اور روایات کا تحفظ کرنا اور عوامی شعور بیدار کرنا۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم خود کو ایک ذمہ دار شہری تسلیم کریں گے۔
یہاں پاکستان میڈیا کلب کا مختصر تعارف بھی ضروری ہے جس کی کاوشوں سے یہ دورہ ممکن ہوا۔
پاکستان میڈیا کلب 2014 میں قائم کیا گیا، جس کا مقصد میڈیا کے درپیش مسائل کے حل، تربیت، اور اداروں کے مابین رابطے کو فروغ دینا ہے۔ تنظیم نے نہ صرف صحافیوں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا بلکہ مختلف ممالک کے مطالعاتی دورے بھی کرائے۔
اب تک پاکستان میڈیا کلب کی جانب سے چار سو سے زائد صحافیوں کو مختلف ممالک کے مطالعاتی دورے کرائے جا چکے ہیں۔ ان دوروں میں پارلیمنٹرین، بزنس کمیونٹی کے نمائندے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی شامل کیا گیا تاکہ باہمی تبادلہ خیال کے مواقع پیدا ہوں۔
وفد میں شامل قابلِ ذکر شخصیات میں محترمہ عروج رضا سیامی، محترمہ مومینہ وحید، محترمہ مدیحہ الماس خان، محترمہ عظمیٰ خان رومی، محترمہ ہیبہ قریشی، محترمہ شاہنیلہ قریشی، عقیل یوسفزئی، فضل نبی، محمد اویس خان، عصمت گل، امیر خان، عمیر علی خان، محمد حماد خان، محمد فاروق، ذوالفقار خان، رسول داوڑ، طاہر محمود، نوید انجم، نصیر اعظم، محمد حسیب، شہادت حسین، نعیم اقبال اور شیرین ذادہ شامل تھے۔
آذربائیجان میں وفد نے پاک–آذربائیجان بزنس کمیونٹی کے صدر محبت علی سے بھی ملاقات کی، جو ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسی طرح محمد طارق باکو شہر میں “پریٹی کیفے” کے نام سے ایک ریستوران چلاتے ہیں، جہاں پاکستانی اور بین الاقوامی کھانوں کا ذائقہ پیش کیا جاتا ہے۔ طارق صاحب اپنی مہمان نوازی کے حوالے سے ایک منفرد مثال ہیں۔
دورے کے اختتام تک، باکو ایئرپورٹ پر رخصتی کے وقت تک محبت علی اور طارق صاحب پاکستانی وفد کے ہمراہ رہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
پاک–آذربائیجان دوستی زندہ باد!


