دیر نام کی وجہ تسمیہ اور اخوند سالاک کا پتھر – تحریر و تحقیق: نجیم شاہ
جب بھی “دیر” کا نام سننے میں آتا ہے، تو ذہن میں فوراً پہاڑوں سے لپٹا ہوا ایک ایسا خطہ اُبھرتا ہے جس کی فضاؤں میں تاریخ کی سانسیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ خطہ نہ صرف جغرافیائی حسن کا حامل ہے بلکہ اپنی تہذیبی، ثقافتی اور روحانی گہرائیوں کے باعث بھی ممتاز مقام رکھتا ہے۔ مگر دیر کی اصل کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اِس سوال نے صدیوں سے مؤرخین، صوفی روایت کے علم برداروں، اور زبان و ثقافت کے متلاشیوں کو متوجہ کیے رکھا ہے۔
دیر کی وجۂ تسمیہ پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں، اور ہر رائے اپنے اندر ایک الگ تاریخی باب سموئے ہوئے ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق ’’دیر‘‘ کا لفظ ’’بت خانہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ان کے نزدیک یہ علاقہ قدیم مذاہب کے پیروکاروں کا مرکز رہا ہے، جہاں عبادت گاہیں، مجسمے، اور مذہبی علامات موجود تھیں۔ یہ نظریہ دیر کی تہذیبی قدامت اور مذہبی تنوع پر روشنی ڈالتا ہے، اور اِس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہاں کا تمدن محض مقامی سطح تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا تعلق وسیع تر مذہبی و تہذیبی روایت سے بھی تھا۔
اس کے برخلاف بعض محققین کا مؤقف ہے کہ ’’دیر‘‘ دراصل ’’میخانہ‘‘ یا ’’خانقاہ‘‘ سے مشتق ہے، جو اس خطے میں صوفی روایت اور روحانی ثقافت کا غماز ہے۔ ان کے مطابق یہ نام اس روحانی فضا کی نمائندگی کرتا ہے جو صدیوں سے یہاں کے باسیوں کے مزاج، عقیدے اور روزمرہ زندگی کا حصہ رہی ہے۔ دیر میں موجود خانقاہیں، بزرگوں کے مزارات اور اجتماعی روحانی میل جول اس نظریے کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ’’دیر‘‘ کا نام اس قصبے سے ماخوذ ہے جو کبھی ریاست دیر کا دارالحکومت رہا۔ یہ قصبہ آج بھی دیر بالا کا ضلعی صدر مقام ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو ’’دیر‘‘ ایک سیاسی و انتظامی شناخت بن کر ابھرتا ہے، جو ریاستی نظم و نسق، علاقائی مرکزیت اور حکومتی ڈھانچے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس تشریح میں دیر کی پہچان صرف تہذیبی یا روحانی نہیں، بلکہ ایک ریاستی ادارے اور اقتدار کی علامت کے طور پر بھی سامنے آتی ہے۔
کچھ روایات میں اس بات کا بھی ذکر ملتا ہے کہ دیر میں ایک قدیم قلعہ موجود تھا جسے ’’دیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ قلعہ اپنی عسکری اہمیت کے باعث مشہور تھا اور اسی کی نسبت سے پورے علاقے کو یہ نام دیا گیا۔ اس تاریخی زاویئے سے قلعہ محض ایک فوجی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک علامتی وجود ہے، جو اس خطے کی طاقت، دفاعی حکمت عملی، اور تاریخی تسلسل کی نمائندگی کرتا ہے۔
علاقائی زبان و ثقافت کے ماہرین کا ایک اور نظریہ یہ ہے کہ ’’دیر‘‘ دراصل مقامی زبان سے ماخوذ لفظ ہے، جو یہاں کے لوگوں نے اس خطے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے مطابق یہ نام مقامی لسانی شعور، روزمرہ کی زبان، اور ثقافتی علامتوں کا مظہر ہے۔ اس نظریئے میں دیر کی پہچان بیرونی اثرات کے بجائے مقامی روایت، عوامی شعور، اور داخلی پہچان سے جڑی ہوئی ہے، جو اس کی انفرادیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔
دیر کی تاریخ صرف نام کی تشریح تک محدود نہیں بلکہ اس میں روحانی اور عسکری دونوں پہلو گہرائی سے پیوست ہیں۔ ایک نمایاں واقعہ شیخ محمد اکبر شاہ المعروف اخوند سالاک کی قیادت میں پیش آیا، جنہوں نے ایک اہم معرکے میں روحانی بصیرت اور عسکری حکمت عملی کے امتزاج سے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ جب چترال میں کالاشی قبائل کی جانب سے قلعہ راہلی کوٹ میں مزاحمت شدید ہو گئی، تو عشریت کے ایک مقامی سردار ’’چوک‘‘ نے اخوند سالاک بابا سے مدد طلب کی، کیونکہ اس کی عسکری کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔
اخوند سالاک بابا نے لشکر کی قیادت سنبھالی اور روحانی حکمت کے ساتھ عسکری منصوبہ بندی کو یکجا کیا۔ ان کی آمد سے لشکر کو نیا حوصلہ اور نظم و ضبط ملا۔ ایمان، تدبر اور قیادت نے مل کر قلعہ راہلی کوٹ کی فتح ممکن بنائی۔ یہ فتح صرف ایک جنگی کامیابی نہ تھی بلکہ روحانی قیادت اور باطنی یقین کی عظیم مثال بن گئی۔ اخوند بابا کی شخصیت نے دیر کو محض ایک خطہ نہیں، بلکہ روحانی نظریات کا گہوارہ بنا دیا۔
فتح کے بعد اخوند سالاک بابا اپنی جماعت سمیت واپس روانہ ہوئے۔ روایت کے مطابق وہ ’’دیر او ڈنڈ‘‘ کے جنگلات سے ایک پتھر بطور یادگار ہمراہ لائے، جسے اپنے گھر کی دیوار میں نصب کیا۔ یہی پتھر بعد ازاں ’’دیر‘‘ کے نام سے منسوب ہوا، جو نہ صرف اخوند بابا کی یادگار بنا بلکہ ان کی بصیرت، روحانیت اور عسکری حکمت کا استعارہ بھی ٹھہرا۔ یہ پتھر آج بھی موجود ہے اور خاموشی سے ان صداؤں کی گواہی دیتا ہے جو اخوند بابا کی قیادت اور قربانی کے مظہر ہیں۔
اخوند سالاک بابا کی جائے سکونت ’’کابلگرام‘‘ تھی، جو اُس وقت ریاستِ دیر کا حصہ تھا، بعد ازاں یہ قصبہ سوات کا علاقہ بنا اور آج شانگلہ میں شامل ہے۔ اس تبدیلی کے باوجود اخوند بابا کی روحانی میراث بدستور دیر کی شناخت کا جزو بنی ہوئی ہے۔ ان کے اثرات اور تعلیمات اس خطے کی فضاؤں میں آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سردار چوک نے اخوند سالاک بابا کے روحانی احسان کے اعتراف میں ہر سال خالص دیسی گھی بطور نذرانہ بھیجنے کی روایت قائم کی۔ یہ سلسلہ اُس کی نسلوں میں جاری رہا اور دیر کے پہلے نواب محمد شریف خان کے عہد تک پہنچا۔ یہ نذرانہ محض ایک رسم نہ تھی بلکہ اس خطے کے ان جذبات، عقیدت اور روحانی وابستگی کی علامت تھا جو دیر کو صرف جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی ورثہ بناتے ہیں۔
یوں ’’دیر‘‘ کا نام محض ایک لفظ نہیں بلکہ تاریخ، عقیدہ، سیاست، ثقافت اور روحانی ورثے کا سنگم ہے۔ اس میں وہ داستانیں پوشیدہ ہیں جو قلعوں، قصبوں، بزرگوں اور عوامی شعور سے جڑی ہوئی ہیں۔ اور ان کہانیوں میں وہ پتھر بھی شامل ہے جو اخوند سالاک بابا کی واپسی کا خاموش مگر گواہ استعارہ ہے۔


