منشی نول کشور اور احترامِ قرآن – از قلم: نجیم شاہ
لاہور کی گلیاں کبھی علم و ادب کی خوشبو سے مہکتی تھیں۔ یہاں کے اشاعتی ادارے برصغیر بھر میں چرچے رکھتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی مقدس کتاب کو طاق پر رکھ کر دھول چاٹنے کے لیے چھوڑ دیا، اور ایک ہندو برہمن نے اسے عزت دی۔ منشی نول کشور وہ شخص تھا جس نے قرآن کو اشرافیہ کے کمرے سے نکال کر عام مسلمان کے گھر تک پہنچایا۔ یہ حقیقت ہمارے منہ پر تھپڑ ہے کہ ہم وارث ہیں مگر خدمت کسی اور نے کی۔
1858ء میں لکھنؤ میں قائم ہونے والا پنڈت نول کشور پریس برصغیر کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ بن گیا۔ یہاں سے قرآن کے نسخے چھپے، وہ نسخے جو عام آدمی کے ہاتھوں تک پہنچے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک غیر مسلم نے قرآن کو عام کیا، اور ہم مسلمان اپنی مقدس کتاب کو صرف رسموں اور تعویذوں تک محدود کر کے بیٹھے رہے۔ یہ ہماری کوتاہی نہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے۔
نول کشور کے ادارے میں اُصول تھا کہ جہاں قرآن کی جلد بندی ہوتی، وہاں جوتوں سمیت داخلہ ممنوع تھا۔ خود نول کشور بھی اس اُصول کے پابند تھے۔ دو افراد مستقل اس کام پر مامور تھے کہ ادارے کے کمروں میں گھوم کر دیکھیں کہیں قرآن کی آیات والا کاغذ زمین پر نہ پڑا ہو۔ ایسے کاغذ کے ٹکڑوں کو عزت و احترام سے جمع کر کے دفن کیا جاتا۔ یہ احترام کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوا۔ اور ہم؟ ہم نے قرآن کے اوراق کو بے حرمتی کے ساتھ بازاروں میں بکھرتے دیکھا مگر ضمیر نہ جاگا۔
تقسیم کے دنوں میں لاہور کے علمی مراکز اُجڑ گئے۔ مسلمان، ہندو اور سکھ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے۔ مگر اسی لاہور میں نول کشور کا ادارہ قرآن کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے تھا۔ پھر وہ دہلی منتقل ہو گئے اور وہاں بھی قرآن کی اشاعت کا سلسلہ اسی احترام کے ساتھ جاری رکھا۔ اُن کے بچے بھی اسی روایت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہ منظر ہماری آنکھوں میں شرم کا پانی بھر دینے کے لیے کافی ہے۔
نول کشور کی وفات پر ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ روایت ہے کہ جب اُن کی ارتھی شمشان گھاٹ میں رکھی گئی تو چتا آگ نہ پکڑ سکی۔ بار بار کوشش کے باوجود بے سود۔ امام بخاری جامع مسجد دہلی وہاں پہنچے اور کہا: ’’یہ شخص جس نے قرآن کی عمر بھر خدمت کی ہے، اس کی چتا کو آگ لگ ہی نہیں سکتی۔ بہتر یہی ہے کہ اسے دفن کیا جائے۔‘‘ یوں ایک ہندو کو شمشان گھاٹ میں دفن کیا گیا۔ یہ واقعہ ہماری تاریخ پر ایک چیخ ہے، ایک سوال ہے، ایک زخم ہے۔
یہ واقعہ محض ایک کرامت نہیں بلکہ ایک سبق ہے۔ قرآن کا احترام کرنے والا چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، اللہ اُس کی عزت کو بلند کر دیتا ہے۔ نول کشور نے اپنی زندگی میں قرآن کی خدمت کو مقدس ذمہ داری سمجھا اور اُن کا انجام اسی خدمت کی عظمت کا روشن ثبوت بن گیا۔ اور ہم؟ ہم نے قرآن کو صرف قبروں پر پڑھنے اور شادی بیاہ کی رسومات میں سنانے تک محدود کر دیا۔
یہ کہانی ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ہم مسلمان قرآن کے وارث ہیں مگر کتنے ہیں جو اس کے احترام کو زندگی کا حصہ بناتے ہیں؟ ایک ہندو نے وہ کام کیا جو ہمارے علما اور حکمران نہ کر سکے۔ اُس نے قرآن کو عام کیا، اس کے نسخے کو سستا کیا، اور اس کے تقدس کو ادارے کے اُصولوں میں ڈھالا۔ یہ تضاد ہماری کوتاہیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ ہم نے قرآن کو صرف تعویذ اور رسموں تک محدود کر دیا، اور ایک غیر مسلم نے اسے زندہ رکھنے کا بیڑا اُٹھایا۔
پنڈت منشی نول کشور کی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ اصل عظمت مذہب کے نام پر نہیں بلکہ عمل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کا احترام کرنے والا چاہے برہمن ہو یا مسلمان، اللہ اس کو عزت دیتا ہے۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اس سبق کو یاد کریں اور قرآن کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔ نول کشور کی زندگی ایک پیغام ہے: قرآن کا ادب کرو، یہ ادب تمہیں دُنیا و آخرت میں سربلند کرے گا۔

