کے پی اسمبلی کی دس سالہ کارکردگی (2013–2023) – ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ – از: مبشرالملک

یہ رپورٹ مختلف معتبر ذرائع جیسے کہ PILDAT (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی)، DAWN, The Express Tribune, اور سرکاری محکموں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ یہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی 2013 سے 2023 تک کی پارلیمانی و عوامی کارکردگی پر ایک تحقیقی اور تجزیاتی جائزہ ہے۔ اس کا تعلق سابقہ نگراں یا عبوری حکومت یا موجودہ حکومت سے نہیں بلکہ پچھلے دس سالہ ادوار، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں پرویز خٹک اور محمود خانی ادوار (2013–2018 اور 2018–2023) کی کارکردگی سے ہے۔
✅ نمایاں کامیابیاں اور عوامی بہبود کے اقدامات
1. صحت کے میدان میں انقلاب
صوبہ گیر صحت کارڈ (Sehat Card Plus) کا آغاز، ہر خاندان کے لیے سالانہ PKR 10–20 لاکھ مفت علاج کی سہولت۔
پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (PIC) کا قیام، ہزاروں افراد کو مفت امراضِ قلب کی سہولیات۔
2. نقل و حمل میں بہتری
سوات موٹروے فیز 1 کی تعمیر، سیاحت اور تجارت کو فروغ۔
پشاور BRT منصوبہ، روزانہ 3 لاکھ سے زائد مسافروں کو سفری سہولت۔
پشاور–ڈی آئی خان موٹروے، جنوبی اضلاع کی مرکزی علاقوں سے رسائی۔
3. تعلیم اور فلاحی منصوبے
ضم شدہ علاقوں میں اسکول اپگریڈیشن، ہنر پروگرام، اپنا گھر اسکیم، اور روزگار اسکیمز کا آغاز۔
4. ماحولیاتی و زرعی ترقی
بلین ٹری سونامی، عالمی سطح پر تسلیم شدہ منصوبہ۔
ڈیمز اور شمسی توانائی اسکیمز، زرعی پیداوار میں بہتری اور توانائی کی فراہمی۔
5. صنعتی و توانائی منصوبے
رشکئی اور بنوں اکنامک زونز، لاکھوں روزگار کے مواقع۔
سولر انرجی اور ٹرانسمیشن لائنز، توانائی کے شعبے میں خودکفالت کی سمت قدم۔
6. قانون سازی اور شفافیت
188 قوانین کی منظوری، شفافیت میں ملکی سطح پر پہلی پوزیشن۔
“اختیار عوام کا” پورٹل، شہری شکایات اور فیڈبیک کے لیے۔
❌ قابلِ ذکر ناکامیاں اور کمزوریاں
1. رہنماؤں کی اسمبلی سے لاتعلقی
وزیراعلیٰ کی اسمبلی میں شرکت 8٪ تک محدود رہی۔
اپوزیشن و حکومتی ارکان کی کم حاضری سے پارلیمانی احتساب متاثر ہوا۔
2. مالی بے قاعدگیاں و بدانتظامی
بعض منصوبوں میں تاخیر، لاگت میں اضافہ، اور شفافیت پر سوالات۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹس میں بے ضابطگیوں کی نشان دہی۔
3. قبائلی اضلاع میں سستی
فاٹا انضمام کے باوجود بعض بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی۔
ترقیاتی منصوبے ضم اضلاع میں سست روی کا شکار رہے۔
4. عوامی رابطے کا فقدان
اکثر ایم پی ایز صرف ترقیاتی فنڈز پر توجہ دیتے رہے، عوامی رابطے اور مؤثر نمائندگی کمزور رہی۔
🏁 نتیجہ: کامیابیوں کا سفر، مگر سفر ابھی باقی ہے
گزشتہ عشرے کے دوران خیبر پختونخوا اسمبلی نے کئی حوالوں سے ترقی کی راہیں کھولیں۔ صحت، ماحولیاتی تحفظ، اور قانون سازی میں قابلِ تحسین کام ہوا۔ تاہم، عوامی نمائندگی کی اصل روح — مسلسل رابطہ، شفاف احتساب اور قیادت کی موجودگی — ابھی بھی مکمل حاصل نہیں ہو سکی۔

