بھارتی پروپیگنڈے کا غبار اور زمینی حقائق – پیامبر – قادر خان یوسف زئی
بین الاقوامی سیاست کی بساط پر سچ اور جھوٹ کی تمیز اب اتنی مشکل ہو چکی ہے کہ اکثر اوقات حقیقت کی تلاش میں انسان کو پروپیگنڈے کی کئی تہوں کو کھودنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں جنوبی ایشیا کے خطے میں جو سفارتی اور ابلاغی دھول اڑائی جا رہی ہے، وہ محض اتفاقی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد پاکستان کی تزویراتی پوزیشن اور اس کے ذمہ دارانہ ریاستی کردار کو مشکوک بنانا ہے۔ جب ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایٹمی تجربات سے متعلق بیان اور اس پر بھارتی میڈیا کی یلغار کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پڑوسی ملک کا میڈیا اور اس کے پالیسی ساز ادارے کس طرح حقائق کو مسخ کر کے اپنی عوام اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ محض خبروں کی ترسیل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ففتھ جنریشن وارفیئر کا وہ محاذ ہے جہاں بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے اور دشمن کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور حقائق کا سورج بالآخر طلوع ہو کر رہتا ہے۔
معاملہ تب شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک گفتگو کے دوران ایٹمی صلاحیتوں اور تجربات کا تذکرہ کیا۔ ان کے اندازِ بیان کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا اور وہاں کے مخصوص تھنک ٹینکس نے فوراً یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ شاید پاکستان دوبارہ ایٹمی دھماکے کرنے جا رہا ہے یا اس نے حال ہی میں کوئی خفیہ تجربہ کیا ہے۔ یہ پروپیگنڈا اس قدر مضحکہ خیز اور بے بنیاد تھا کہ اس پر ہنسا تو جا سکتا ہے مگر اس کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کو فوراً ردعمل دینا پڑا اور یہ واضح کرنا پڑا کہ پاکستان نے آخری بار ایٹمی دھماکے 28 مئی 1998 کو کیے تھے، جس کے بعد سے پاکستان نے یکطرفہ طور پر مزید تجربات نہ کرنے کی پالیسی (Moratorium) اختیار کر رکھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کو اچانک یہ واویلا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب پاکستان کی ایٹمی صلاحیت میں نہیں بلکہ خود بھارت کے اندرونی خوف اور اس کے اپنے ایٹمی پروگرام کی بدترین حفاظتی صورتحال میں پوشیدہ ہے۔ بھارت یہ چاہتا ہے کہ دنیا کی توجہ اس کے اپنے غیر محفوظ نیوکلیئر پروگرام سے ہٹ کر پاکستان کی طرف مبذول ہو جائے، جو کہ ہمیشہ سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے حوالے سے دنیا کا محفوظ ترین نظام مانا جاتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ جو ملک دوسروں پر انگلی اٹھا رہا ہے، اس کا اپنا دامن کتنا داغدار ہے۔ گزشتہ برس کے واقعات کو اگر بازیافت کیا جائے تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات سامنے آتے ہیں جو عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ بھارت کے انتہائی حساس سمجھے جانے والے بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر (BARC) اور دیگر تنصیبات سے تابکار مواد کی چوری کے واقعات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہے۔ خاص طور پر ‘کیلیفورنیم’ (Californium) نامی انتہائی قیمتی اور خطرناک تابکار مادہ، جو ایٹمی ری ایکٹرز میں استعمال ہوتا ہے، اس کی بلیک مارکیٹ میں فروخت نے پوری دنیا کے ہوش اڑا دیے تھے۔ یہ مادہ سبزی منڈی میں بکنے والی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ایک ایسا اسٹریٹجک میٹریل ہے جس کا غلط ہاتھوں میں جانا تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارتی شہری اس مواد کو غیر قانونی طور پر فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کا نیوکلیئر سیفٹی اور سکیورٹی کا ریکارڈ انتہائی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
اسی سفارتی بریفنگ کے دوران ایک اور انتہائی حساس موضوع پر بھی وضاحت سامنے آئی جو غزہ کی صورتحال اور وہاں پاکستانی فوج بھیجنے سے متعلق افواہوں کے بارے میں تھی۔ سوشل میڈیا اور بعض غیر مصدقہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ شاید پاکستان، غزہ میں امن مشن یا کسی اور صورت میں اپنی فوج بھیجنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس طرح کی خبریں جذباتیت کو ہوا دینے اور ریاست کو ایک مشکل سفارتی پوزیشن میں ڈالنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے انتہائی متوازن اور ذمہ دارانہ انداز میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کا یہ موقف دراصل بین الاقوامی قوانین اور ریاستی دانش مندی کا عکاس ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین پر اصولی موقف اختیار کیا ہے اور فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی بھرپور حمایت کی ہے، لیکن فوج بھیجنے کا معاملہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بین الاقوامی مینڈیٹ اور قانونی جواز کا متقاضی ہے۔
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیرِ غور ہے اور پاکستان اپنا لائحہ عمل سلامتی کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں ہی طے کرے گا۔ یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار رکنِ اقوامِ متحدہ کے طور پر کام کرتا ہے اور کسی بھی یکطرفہ مہم جوئی کے بجائے اجتماعی عالمی میکانزم پر یقین رکھتا ہے۔ اگر سلامتی کونسل کوئی امن فوج بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے اور اس میں او آئی سی یا دیگر ممالک کا کردار طے پاتا ہے، تو پاکستان یقیناً اس پر غور کرے گا، جیسا کہ ماضی میں بھی پاکستان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں سب سے زیادہ فوج فراہم کرنے والا ملک رہا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں، جب کہ اسرائیل کی جارحیت جاری ہے اور کوئی بین الاقوامی اتفاق رائے موجود نہیں، ایسی افواہیں پھیلانا دراصل عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کا دل امت مسلمہ کے ساتھ دھڑکتا ہے، مگر ریاست کے فیصلے حکمت اور عالمی قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔
ان دونوں معاملات ایٹمی پروپیگنڈا اور غزہ مشن کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے، اور وہ ہے پاکستان کے خلاف ڈس انفارمیشن کا جال۔ ایک طرف بھارت ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ ہماری ڈیٹرنس کی ساکھ متاثر ہو، اور دوسری طرف غزہ کے معاملے پر غلط خبریں پھیلا کر حکومت اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ہائبرڈ وارفیئر کا وہ دور ہے جہاں گولی سے زیادہ بیانیے کی اہمیت ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ روایتی جنگ میں پاکستان کو زیر کرنا ناممکن ہے، اس لیے اب ابہام کی جنگ مسلط کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام اور ادارے اس جنگ کے تقاضوں سے نابلد نہیں ہیں۔

