ایمان کامل کے تقاضے – تحریر: اقبال حیات اف برغذی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام کائنات اللہ رب العزت کے احکامات کے تابع ہے۔ آپ کی منشاء کے بغیر درخت پر پتہ ہل نہیں سکتا اور خد سے سب کچھ ہونے اور آپ کے بغیر کسی سے کچھ بھی نہ ہونےکا تصور کو ایمان کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اور دینا میں جو واردات چاہے اجتماعی طور پر یا انفرادی طورپر رونما ہوتے ہیں رب کائنات کی منشا کا حامل ہوتے ہیں۔
اسلام کے اس بنیادی عقیدے پر ایمان رکھنے کےباوجود ہم تمام معاملات کو اسباب سے نسبت دیتےہیں اور پس پردہ مسبب کی کارفرمائی سے منسوب نہیں کرتے ایک ممتاز ولی اللہ حضرت با یزید بسطامی انتقال کے بعد اس دور کے ایک خدا رسیدہ شخصیت کو خواب میں ملتے ہیں۔حالات کے بارے میں دریافت کرنے پر مرحوم ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نےمجھے براہ راست اپنے سامنے کھڑا کئے اور پوچھا کہ بتاو میرے لئے کیا لائے ہو۔ میں نے کہا یہ یاعظیم ذات آپ کی شان کے شایان شان میرے پاس کیا ہوسکتا ہے ۔البتہ ایمان کو سلامت لایا ہوں ۔ اللہ پاک نے دریافت کیا کہ کس پر ایمان۔
میں نے کہا کہ یا عظیم ذات آپ پر ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ بیماری کے دوران اپنی عیادت کےلئے آنے والے لوگوں سے آپ کہہ رہے تھے کہ دودھ زیادہ پیا تھا اس نے میری صحت خراب کردی۔ اس وقت میں کہاں گیاتھا ۔آج اس قسم کے الفاظ زبان زدعام ہیں ۔ہم پیروں،پری خوانوں اور نجومیوں وغیرہ پر مقاصدگی برآوری کے سلسلے میں کامل یقین رکھتے ہیں ۔حالانکہ نہ انسان غیب کی باتوں کو جانتا ہے اور نہ ان میں ردوبدل کی استطاعت رکھتا ہے ۔عباسی دور کے ایک مشہور حکمران اورنگ زیب عالمگیر اپنے ایک وزیر کو کسی اہم نوعیت کے مشن پر دوسرے ملک بھیجتے ہیں خبررسانی کے ذرائع ناپید ہونے کی وجہ سے حالات سے باخبر ہونا مشکل تھا۔ وزیر کی اپنے مشن میں کامیابی کی خبر کسی ذریعے سے اس وقت کے ایک بڑے نجومی تک پہنچتی ہے ۔اور وہ فوراً خلیفہ کے دربار کی طرف روانہ ہوتا ہے خلیفہ اس وقت اپنے وزراء کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ یہ حضرت اجازت لےکر محفل میں تشریف فرماہوتے ہیں خلیفہ کام کی اہمیت کے پیش نظر اپنے وزیر کے مشن کے سلسلے میں نجومی سے دریافت کرتے ہیں اور وہ انگلیوں اور آنکھوں کو گھمانے اور قلم کو کاغذپر پھیرنے کے بعد مسکراتے ہوئے وزیر کی کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے ان کے عنقریب پہنچنے کی خبردیتے ہیں ۔
یوں تھوڑی دیر بعد وزیر موصوف دربار میں داخل ہوتے ہیں اور خلیفہ اور اس کے بعد درباری خوشی سے پھولا نہیں سماتے ہیں۔دوران گفتگو نجومی پر عقیدت پیداہونے کی بنیاد پر ان سے اپنی عمر کے بارے میں دریافت کرتے ہیں نجومی حسب عادت حرکات وسکنات کے بعد آہ بھرتے ہوئے خلفیہ کو ان کی زندگی کے ایک سال باقی رہنے کی خبر دیتے ہیں ۔تمام درباری ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر دکھ کا اظہا ر کرتے ہیں ۔اور خلیفہ ساتھ ملتے ہوتے انتہائی غمگین ہوجاتے ہیں اور یوں یہ ہنستا مسکراتا محفل غم میں بدل جاتا ہے۔
تمام حاضرین سرجھکائے مضموم بیٹھے تھے کہ اسی دوران خلیفہ کا ایک زیرک اور مقبول برمکسی نام سے موسوم وزیر اندر داخل ہوتے ہیں اور ماحول کو دیکھ کر وجہ دریافت کرنے پر نجومی کے بارے میں انہیں بتایا جاتا ہے ۔آپ اٹھ کر نجومی پاس جاکر ان سے ان کی اپنی عمر کے بارے میں دریافت کرنے پر نجومی حساب کتاب کرکے چالیس سال مزید زندہ رہنے کی بات کرتے ہیں ۔وزیر موصوف فوراً تلوار نکال کر ان کا سر قلم کرتے ہیں اور خلیفہ کی انکھیں حیرت کا شکار ہوتی ہیں اور پوری محفل دوبارہ زعفران بن جاتی ہے۔یہی وہ کیفیت ہے جس پر یقین کرکے انسان اپنے ایمان کو نقصان پہنچاتا ہے۔

