اہل اور بصیرت افروز قیادت، ایک قوم کو کیسے بدل دیتی ہے؟۔ تحریر: اقبال عیسیٰ خان
دنیا کی تاریخ میں ترقی کے کئی ماڈل ملتے ہیں، لیکن ہر کامیاب قوم کی بنیاد ایک ہی نکتے پر استوار رہی ہے، قیادت۔ وہ قیادت جو وژن رکھتی ہو، جرأتِ فیصلہ سے آشنا ہو، اور اپنی قوم کو خواب دکھانے کے ساتھ اُنہیں تعبیر دینے کا حوصلہ بھی رکھتی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں وسائل سے نہیں بلکہ قائد کے وژن سے آگے بڑھتی ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان ملبے کا ڈھیر تھا، مگر اس کی قیادت نے علم، نظم و ضبط اور صنعتی مہارت کے ذریعے قوم کو کھڑا کر دیا۔ 1950 میں جاپان کی فی کس آمدنی صرف 190 ڈالر تھی، آج وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، جس کی فی کس آمدنی 40 ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا نے 1960 میں پاکستان سے کم جی ڈی پی سے آغاز کیا، مگر وژنری قیادت نے تعلیم، ٹیکنالوجی اور برآمدات پر توجہ دی، اور آج وہاں فی کس آمدنی 33 ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان اور خصوصاً گلگت بلتستان میں مسئلہ قیادت کی کمی نہیں بلکہ اہل قیادت کی عدم ترجیح ہے۔ یہاں باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور وژنری نوجوان موجود ہیں، لیکن فیصلہ سازی تاحال روایتی اور وقتی سوچ کے تابع ہے۔ گلگت بلتستان کے وسائل، پانی، معدنیات، سیاحت اور نوجوان افرادی قوت، ایک خوشحال خطے کی بنیاد بن سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے گرد کوئی واضح وژن، پالیسی اور سمت طے کی جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق، گلگت بلتستان کی آبادی تقریباً 23 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جن میں 64 فیصد سے زائد نوجوان ہیں۔ شرحِ خواندگی 66 تا 78 فیصد بتائی جاتی ہے، جو ملک کے کئی پسماندہ علاقوں سے بہتر ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ خطہ استعداد کے اعتبار سے کمزور نہیں، صرف سمت اور قیادت کا منتظر ہے۔
دنیا کی کامیاب قوموں نے قیادت کو روایت کا اسیر نہیں، بلکہ وژن کا تابع بنایا۔ سنگاپور کی مثال روشن ہے, 1965 میں جب وہ آزاد ہوا تو بے روزگاری کی شرح 14 فیصد تھی، مگر لی کوان یو جیسے بصیرت مند رہنما نے تعلیم، شفافیت اور پائیدار پالیسیوں کو بنیاد بنا کر چند دہائیوں میں سنگاپور کو دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں شامل کر دیا۔
اگر یہی فارمولا گلگت بلتستان پر منطبق کیا جائے تو یہ خطہ پاکستان کے مستقبل کی معیشت کا مرکز بن سکتا ہے۔ سی پیک، سیاحت، معدنیات اور ڈیجیٹل رابطوں کا یہ سنگم تبھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا جب قیادت محض نمائندگی کی سیاست سے آگے بڑھ کر عملی وژن اختیار کرے گی۔
قومیں وعدوں سے نہیں، ترجیحات سے بنتی ہیں۔ اہل قیادت وہ ہے جو صرف خواب نہیں دکھاتی بلکہ حقیقت میں سمت بدل دیتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو پہاڑوں کے درمیان صرف تقریریں نہ کریں، بلکہ ان پہاڑوں کے پار دیکھنے کی بصیرت رکھتے ہوں, جو نوجوانوں کو نعروں کے بجائے مواقع سے جوڑیں، اور جو بجلی کے منصوبے فائلوں سے نکال کر دیہات میں روشن کریں۔
تاریخ کا پیغام واضح ہے, جب قوم کو وژنری قیادت میسر آتی ہے تو وسائل خود بخود متحرک ہو جاتے ہیں۔ جاپان، سنگاپور یا جنوبی کوریا نے کوئی جادو نہیں کیا، انہوں نے صرف فیصلہ کن قیادت پیدا کی۔ شاید اب وقت ہے کہ گلگت بلتستان بھی فیصلہ کرے, اسے نمائندگی چاہیے یا قیادت۔

