غازی علم ال دین شہیدؒ ۔ عشقِ رسول ﷺ کا زندہ استعارہ – تحریر: ثنائاللہ مجیدی
برصغیر کی تاریخ کے صفحات میں ایک دن ایسا ہے جو ایمان کی حرارت سے روشن ہے ایک دن جب عشق نے گستاخ کو مات دی جب محبت نے خوف کو شکست دی جب ایک نوجوان نے غلامی کے اندھیروں میں امت کے دل میں غیرت کی شمع روشن کر دی یہ دن تھا 31 اکتوبر 1929 جب لاہور کا ایک بڑھئی کا بیٹا علم الدین اپنے نبی ﷺ کی ناموس پر قربان ہوا اور تاریخ نے اسے غازی علم الدین شہید کے نام سے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔غازی علم الدین شہید ایک عام مزدور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد مولوی تاج الدین صاحب دینی مزاج کے بزرگ تھے انہوں نے اپنے بیٹے کی تربیت محبت رسول ﷺ کے سائے میں کی تھی علم الدین جوان تھے نرم گفتار مگر غیرت ایمانی سے لبریز ایک ہاتھ میں ہتھوڑی اور دوسرے میں عشق رسول ﷺ کا چراغ لیے وہ زندگی کے عام دن گزار رہے تھے کہ اچانک ایک طوفان آیا-
انگریزوں کے دور میں ایک ملعون راجپال نے رنگیلا رسول کے نام سے کتاب شائع کر کے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی امت کے علما مشائخ و ماہرین نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جلسے جلوس ہوئے مگر انصاف کا دروازہ بند رہا مسلمان تڑپتے رہے مگر قانون خاموش رہا ایمان کا خون کھولنے لگا لاہور کے گلی کوچوں میں ایک چپ تھی مگر اس چپ کے پیچھے ایک آتش فشاں پکتا تھا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک عام نوجوان نے فیصلہ کیا کہ جب قانون سو جائے تو ایمان کو بیدار ہونا چاہیے اس نے نہ نعرے لگائے نہ اعلان کیا بس دل میں یہ ٹھان لیا کہ نبی ﷺ کی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گا اور پھر ایک دن اس نے گستاخ راجپال کو اس کے جرم کی سزا دے دی۔یہ کوئی عام قتل نہیں تھا یہ ایک غلام امت کے دل سے نکلا ہوا اعلان تھا کہ ہم زندہ ہیں غازی علم الدین گرفتار ہوئے مقدمہ چلا فیصلہ آیا سزائے موت اور جب میانوالی جیل میں تختہ دار تیار ہوا تو وہ مسکرا رہے تھے ان کے چہرے پر سکون تھا آنکھوں میں نور اور زبان پر درود شریف وہ کہہ رہے تھے میں جا رہا ہوں اپنے محبوب ﷺ کے حضور۔
31 اکتوبر 1929 کی صبح میانوالی جیل کا آسمان ایمان کی حرارت سے روشن تھا جب غازی علم الدین شہید نے تختہ دار پر قدم رکھا تو زمین نے ایک عاشق رسول کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی. جب ان کی شہادت کی خبر لاہور پہنچی تو شہر لرز اٹھا لاکھوں مسلمان گھروں سے نکل آئے حکومت نے ابتدا میں ان کی میت خفیہ دفنانے کی کوشش کی مگر عوامی دباؤ کے آگے انگریز حکومت بے بس ہو گئی غازی علم الدین کی میت لاہور لائی گئی اور پھر جو منظر دیکھا گیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔
یکم نومبر 1929 جمعۃ المبارک کے دن لاہور کی فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی انسانوں کا سمندر امڈ آیا ہر آنکھ اشکبار تھی ہر دل میں جوش تھا بڑے بڑے علماء و مشائخ نے انکی نماز جنازہ میں شرکت کی۔جب کسی نے اقبال سے پوچھا کہ آپ بھی آئے ہیں تو اقبال نے کہا میں ایک سچے مومن کا جنازہ پڑھنے آیا ہوں۔نماز جنازہ کے بعد جب لاکھوں انسانوں نے لاشے کو کندھوں پر اٹھایا تو فضا درود و سلام سے بھر گئی غازی علم الدین کو میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپرد خاک کیا گیا وہ قبر آج بھی اہل ایمان کے دلوں کی روشنی ہے جہاں جا کر لوگ دعا کرتے ہیں یا اللہ ہمیں ایسا ایمان عطا کر جو علم دین کو ملا۔
غازی علم الدین شہید کی شخصیت کا خلاصہ سادہ ہے وہ نہ کسی تنظیم کے سربراہ تھے نہ کسی سیاسی قوت کے نمائندہ ایک عام نوجوان تھے مگر ایمان کے شہسوار بن گئے ان کی غیرت ایمان کی علامت بن گئی ان کی خاموشی بھی اعلان بن گئی انہوں نے امت کو بتایا کہ محبت رسول ﷺ کا مفہوم صرف زبان سے نعرے لگانا نہیں بلکہ عمل سے دکھانا ہے۔
آج کے دور میں جب ایمان لفظوں تک محدود ہو گیا ہے غازی علم الدین ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ عشق رسول ﷺ کے دعوے کردار سے سچے ہوتے ہیں ہماری زبانیں نبی ﷺ کے نام پر لرزتی ہیں مگر ہمارے اعمال اس محبت کی تائید نہیں کرتے ہم ان کے نام پر پوسٹیں بناتے ہیں مگر ان کے دین کی سنتوں سے غافل ہیں غازی علم الدین نے اپنے خون سے بتایا کہ عشق تب سچا ہے جب انسان خود کو بھلا دے۔
31 اکتوبر صرف ایک تاریخ نہیں ایک عہد کی یاد ہے کہ غلامی کے دور میں بھی ایمان کا چراغ بجھ نہیں سکا اس چراغ کو ایک بڑھئی کے بیٹے نے روشن رکھا وہ جو جیل کی کوٹھری میں عشق کا درس دیتا رہا وہ جس نے تختہ دار کو سعادت سمجھا وہی آج ایمان کی علامت ہے۔
علامہ اقبال نے بعد میں فرمایا یہ نوجوان ملت کی روح ہے جس نے عشق رسول ﷺ کو اپنی جان سے ثابت کر دیا اگر ہر مسلمان کے دل میں علم الدین جیسا جذبہ جاگ جائے تو امت کبھی زوال کا شکار نہ ہو غازی علم الدین نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ عشق رسول ﷺ ہی وہ طاقت ہے جو غلامی کے زنجیروں کو توڑ سکتی ہے۔
آج جب ہم میانی صاحب کے قبرستان میں داخل ہوں تو دل کہتا ہے کہ اے شہید عشق ہمیں بھی وہی غیرت عطا ہو جو تمہیں ملی تھی ہم اپنی دنیا میں کھو گئے ہم نے ایمان کے معنی بھلا دیے تم نے نبی ﷺ کے عشق میں جان دی اور ہم نے معمولی مفاد کے لیے دنیا میں مستغرق ہیں۔
غازی علم الدین شہیدؒ کی قربانی محض ایک فرد کی نہیں بلکہ امت کی روح کی بیداری کا اعلان تھی اس نے امت کو بتایا کہ ایمان محض الفاظ کا نام نہیں بلکہ غیرت و محبت کے امتزاج کا نام ہے اس نے نئی نسل کو سمجھایا کہ عشقِ رسول ﷺ ایمان کا مرکز ہے اور اس کے بغیر دلوں میں حرارت باقی نہیں رہتی۔
آج جب دنیا مادی دوڑ میں گم ہے اور ایمان کا چراغ مدھم ہوتا جا رہا ہے ہمیں پھر سے غازی علم الدین شہیدؒ جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دین کے لیے جینا اور مرنا فخر سمجھتے ہیں کاش ہماری آنکھوں میں بھی وہی روشنی جاگ اٹھے جو علم الدین شہیدؒ کے دل میں تھی کاش ہمارے دل بھی عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے اسی طرح دھڑکیں جس طرح اس نوجوان کے دل نے دھڑکا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عشقِ رسول ﷺ کی وہ سچی حرارت عطا فرمائے جو عمل کو ایمان سے جوڑ دے ہمیں غیرتِ ایمانی کی وہ قوت دے جو باطل کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ عطا کرے اور ہمیں غازی علم الدین شہیدؒ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے تاکہ ہم بھی دین کی سربلندی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر سکیں۔ شعر
جو مجھے لے جائے ان کے آستان پاک تک
وہ تمنا وہ طلب وہ مدعا درکار ہے

