چمچہ گیری ایک آرٹ ہے ۔ تحریر : نورالہدیٰ یفتالی
آج جب ہم چمچہ گری کا لفظ سنتے ہیں تو ہنسی تو آتی ہے، مگر حیرت نہیں کیونکہ یہ کوئی نیا ہنر نہیں یہ تو صدیوں پرانا سائنس ہے جس نے بادشاہوں سے لے کر بیوروکریسی، اور درباروں سے لے کر کارپوریٹ دفاتر تک اپنی مضبوط جڑیں پھیلا رکھی ہیں ۔انسانی تاریخ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اقتدار کے ایوانوں میں ہمیشہ دو ہی طبقے ممتاز رہے ہیں ایک وہ جو تخت بناتے ہیں، اور دوسرے وہ جو تخت پر بیٹھنے والے کی تعریف کے پل باندھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ دوسرا طبقہ زیادہ محفوظ، زیادہ کامیاب اور زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ایسے بے شمار کردار ملتے ہیں جو بادشاہوں کی چاپلوسی کے سہارے نہ صرف منصب حاصل کرتے رہے بلکہ سلطنتوں کی پالیسیاں بھی ان کے کان میں خوشامد کے دو جملے پھونک کر بدل دیا کرتے تھے۔ مغل دربار کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک وزیر ہر روز بادشاہ کے محل کے باہر کھڑے ہو کر بلند آواز میں کہتا جہاں پناہ کے قدموں کی مٹی بھی شفا ہے بادشاہ نے کبھی اس کی قابلیت نہیں پوچھی بس خوشامد پسند آئی، اور صاحب وزیر بن گئے۔ یہی وہ دور تھا جب ریاستیں جنگوں سے کم، خوشامدانہ جملوں سے زیادہ چلتی تھیں۔ چاپلوسی اور کالا دہن کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر یہ دونوں مل جائیں تو آپ کے پانچو ں انگلیاں گھی میں ہونگے۔ سلطنتِ عثمانیہ میں درباری سازشیں ایک باقاعدہ ادارہ تھی۔ جو جس کے خلاف زیادہ چالاکی سے جھوٹ گھڑ لیتا، وہی سلطان کا قریب ترین بن جاتا۔ یعنی یوں کہیے کہ ایک زبان آگ برساتے ہوئے دشمنوں کو ختم کرتی تھی، اور دوسری زبان شہد ٹپکاتے ہوئے صاحبِ اقتدار کے قدموں تک رسائی دیتی تھی۔
فررعونوں کے دربار میں درباری خوشامدی اکثر حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتے تھے۔ رومی سلطنت میں سیزر کے گرد موجود لوگ طاقت کے بدلے وفاداری اور چاپلوسی کی کرنسی استعمال کرتے تھے۔ عباسی دربار میں شعراء حکمرانوں کی تعریف میں قصائد کہتے تھے تاکہ انعامات اور عہدے حاصل کر سکیں۔
مغلیہ دور میں درباری القابات اور جاگیریں اکثر ان لوگوں کو ملتی تھیں جو بادشاہ کے قریب رہ کر آدابِ دربار میں مہارت رکھتے تھے۔ برطانوی دور میں یہی چمچہ گری وفادار رعایاکا نام پاکر سرٹیفکیٹس، ٹائٹلز اور خطابات کا ذریعہ بن گئی۔ اس دور میں سر،خان بہادر اور رائے بہادر جیسے اعزازات اکثر خوشامدانِ کے حکومت کے حصے میں آتے۔
آج کا زمانہ پرانے ہنر، نئے نام ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جدید دور میں رہتے ہیں، مگر درحقیقت بنیادی کھیل وہی ہے بس نام بدل گئے ہیں آج کے دور کے جدید درباری اور جدید چمچہ گری ہے کہنے کو دور بدلا ہے، مگر ترقی آج بھی اُنہی کو ملتی ہے جن کے پاس یہ دونوں قدیم ہنر موجود ہوں۔ یعنی چمچہ گری کوئی آج کی پیداوار نہیں، بلکہ طاقت کے دروازوں پر کھڑا ایک قدیم ہنر ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ چمچہ گری ہوتی ہے المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں محنت، ذہانت اور سچائی کے مقابلے میں چاپلوسی کی کرنسی زیادہ طاقتور ہے۔ آپ کے پاس پانچ ڈگریاں ہوں، تجربہ ہو، قابلیت ہو مگر اگر آپ کے اندر چمچہ گری کاہنر نہ ہو تو آپ کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے گا،اور آپ سب سے نالائق تصور کئے جاینگے۔ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ چمچہ گری صرف ایک رویہ نہیں بلکہ ایک ادارہ جاتی روایت رہی ہے جس نے زمانوں کے فیصلے بدل دیے۔ ہاں، یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ واقعی ایک ہنر ہےبلکہ مکمل ڈگری ہے جسے پڑھنے کے لیے ضمیر کا کورس چھوڑنا پڑتا ہے، اور عزت کی کتاب واپس کرنی پڑتی ہے۔


