ڈریپ اور ڈرگز۔ میری بات/روہیل اکبر
کچھ اداروں میں لوگ تو بڑے اچھے اور کام کرنے والے موجود ہیں لیکن اسکے باوجود ان اداروں پر عوام کا اعتماد نہیں ہے کیونکہ اکثریت ان افراد کی ہے جو لوگوں کو تنگ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ایک جائز کام کے لیے بھی سفارش ڈھونڈنی پڑتی ہے یا پھر دفتروں کے چکر لگا لگا کر جوتی گھسانا پڑتی ہے اور آخر کار مایوسی اور پریشانی کے عالم میں انسان حوصلہ چھوڑ جاتا ہے پھر یہی پریشانیاں انسان کو بیمارکرتی ہیں اور پھر علاج اور ادویات مہنگی ہونے کی وجہ سے عام انسان موت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے ہمیں باقی سب محکموں کا تو تجربہ ہو جاتا ہے لیکن محکمہ صحت کا تجربہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان بیمار پڑتا ہے ہمارے ہاں ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام پیچیدہ ہے صحت کی دیکھ بھال سے متعلق مختلف ادارے جو اس کے ذمہ دار ہیں وہ لاپرواہی سے اپنے کام سرانجام دے رہے ہیں
محکمہ صحت کے پورے نظام میں ایک محکمہ بہت اہم ہے جسے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کہا جاتا ہے جسکے ذمہ بہت اہم کام ہے بلخصوص نئی ادویات کو لائسنس جاری کرنا تاکہ مقابلے کا رجحان پیدا ہوا اور ادویات کی قیمتیں کم ہو سکیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر عبیداللہ جیسے محنتی،باکمال اور مخلص انسان کے ہوتے ہوئے ڈریپ سے لوگوں کی شکایات ختم نہیں ہوتی ڈریپ پر لکھنے سے پہلے ملک میں صحت کے متعلق دوسرے اداروں کا حال بھی سنانا چاہتا ہوں کہ شائد ان جگہوں پر کوئی اللہ کا نیک بندہ آجائے تاکہ ہمارے ہاں صحت کا نظام بگڑنے کی بجائے بہتری کی طرف چلنا شروع ہوجائے پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام سرکاری اور نجی شعبوں پر مشتمل ہے آئین کے تحت وفاق کے زیر انتظام علاقوں کے علاوہ صحت بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی روایتی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ مشترکہ طور پر اضلاع کے ساتھ عمل میں لائی جاتی ہے
کچھ سرکاری/ نیم سرکاری تنظیمیں جیسے مسلح افواج، سوئی گیس، واپڈا، ریلوے، فوجی فاؤنڈیشن، ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن اور نسٹ اپنے ملازمین اور ان کے زیر کفالت افراد کو اپنے نظام کے ذریعے صحت کی خدمات فراہم کرتے ہیں جومجموعی آبادی کا تقریبا 10 بنتا ہے باقی لوگوں کے لیے پرائیویٹ ہیلتھ سیکٹر میں ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹوں، روایتی علاج کرنے والوں، دوا فروشوں کے ساتھ ساتھ لیبارٹری ٹیکنیشنز، دکانداروں اور نااہل پریکٹیشنرز کا بھی عمل دخل ہے جبکہ سرکاری سطح پرصحت عامہ کی سہولیات میں اضافے کے باوجود آبادی میں اضافے نے صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور 70فیصد آبادی پرائیوٹ سیکٹر سے علاج کرواتی ہے جن میں طبی پریکٹیشنرز، ہومیوپیتھک ڈاکٹروں، حکیموں اور دیگر روحانی علاج کرنے والوں کی کثیر تعداد ہے نجی صحت کے شعبے کے اندر معیار، اخلاقیات اور قیمتوں کو منظم کرنے کے لیے بہت کم میکانزم موجود ہیں اگر خدا نخواستہ کوئی آفت یا بیماری کا حملہ ملکی یا علاقائی سطح پر ہو تو پھر پانچ روپے والا ماسک بھی پانچ سو روپے میں فروخت ہوتا ہے جو بنیادی اصول صحت سے ہٹ کر تیار ہونا شروع ہوجاتے ہیں
ان حالات میں ڈریپ کا کمال نظر نہیں آتا ڈاکٹر عبیداللہ اور انکے چند ایک ساتھیوں کی کوششیں انکے نیچے کام کرنے والے خاک میں ملا رہے ہیں ان پر تفصیلی بات پھر کبھی سہی ابھی ڈریپ کے کام کے حوالہ سے بات کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو سمجھ آجائے کہ انکا کام ہے کیا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا بنیادی کام عوام کی صحت کا تحفظ کرنا ہے اس بات کو یقینی بنا ناکہ ملک میں دستیاب تمام ادویات (بشمول فارماسیوٹیکل، بائیولوجیکل، میڈیکل ڈیوائسز، کاسمیٹکس اور متبادل ادویات) محفوظ، مؤثر اور معیاری ہوں اسکے ساتھ ساتھ نئی ادویات اور طبی مصنوعات کی رجسٹریشن اور ان کی مارکیٹ میں فروخت کی اجازت دینابھی اسی ادارے کا کام ہے اور یہ یقینی بنانا کہ کوئی بھی دوا بازار میں آنے سے پہلے اس کی افادیت، حفاظت اور معیار درست ہے دوا ساز فیکٹریوں اور تقسیم کاروں کا معائنہ کرنا اور انہیں لائسنس جاری کرنا تاکہ اچھی مینوفیکچرنگ پریکٹسز (GMP) کی پابندی کو یقینی بنایا جا سکے ڈریپ کی ذمہ داری ہے کہ مارکیٹ میں موجود ادویات کے معیار اور حفاظت کی مسلسل نگرانی کرنا اگر کوئی دوا غیر معیاری یا غیر مؤثر پائی جائے تو اسے واپس لینا (recall) یا اس پر پابندی لگانا اور ادویات کے نمونوں کی جانچ کے لیے معیاری لیبارٹریوں کا قیام اور ان کا انتظام کرنا نئی ادویات پر کیے جانے والے کلینیکل ٹرائلز کی نگرانی کرنا تاکہ اخلاقی اور سائنسی معیارات کی پابندی کو یقینی بنایا جا سکے
ان سب سے ہٹ کر سب سے اہم ذمہ داری ڈریپ کی یہ بھی ہے کہ بعض ادویات، خاص طور پر جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنا تاکہ ان کی مناسب دستیابی اور رسائی کو یقینی بنایا جا سکے اور ادویات سے متعلق قوانین، قواعد و ضوابط اور پالیسیاں بنانا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا جبکہ صحت سے متعلق معلومات اور ادویات کے استعمال کے بارے میں عوامی آگاہی فراہم کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے پاکستان میں یہ سارے کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) سرانجام دیتی ہے پنجاب میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) کی کارکردگی اور ایمانداری کے حوالے سے ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں ماضی میں ڈریپ کے اندر بدعنوانی اور بااثر شخصیات کی مداخلت کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (TIP) نے پنجاب کی مارکیٹوں میں ناقص، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی وسیع پیمانے پر موجودگی پر شدید تشویش کا اظہاربھی کیا تھا کہ غیر معیاری طبی آلات اور ایکسپائرڈ ادویات (جیسے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سکینڈل) عام فروخت ہوتی ہیں خاص طور پر غذائی سپلیمنٹس اور متبادل ادویات کی فروخت میں ریگولیٹری نگرانی کی کمی اور ڈرگ انسپکٹرز کی مبینہ ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا
بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحت کے شعبے میں ریگولیشن ایک اہم رکاوٹ رہا ہے اور DRAP کے آپریشنل افعال، تنظیمی اور مالیاتی ڈھانچے میں اہم پالیسی کی کمی پائی جاتی ہے پنجاب میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ادویات کے معیار اور دستیابی کے حوالہ سے بدعنوانی کے الزامات، جعلی ادویات کی موجودگی اور ریگولیٹری نگرانی میں خامیوں جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں مسلسل اس شعبے میں مزید شفافیت اور سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں تاکہ میڈیل سٹوروں سے نشہ آور اشیاء کا سلسلہ بند ہوسکے اور عام ادویات تک غریب لوگوں کی پہنچ ممکن ہوسکے ۔