داد بیداد ۔ تعلیم کے دروازے بند ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
صوبائی حکومت خیبرپختونخوا نے 1500 سرکاری سکولوں اور 57 کالجوں کو بند کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے منصوبے کے تحت طلباء طالبات، اساتذہ اور استانیوں کو گھر بھیجا جائے گا سرکاری عمارتیں سیٹھ ساہوکار کے ہاتھ فروخت کی جائینگی اگلے مرحلے میں مزید سکولوں اور کالجوں سے جان چھڑائی جائیگی – سیاسی لباس میں مسلط ہونیوالے ڈیکٹیٹروں کا موقف یہ ہے کہ جن سرکاری سکولوں اور کالجوں کی کارکردگی اچھی نہیں ان کو مرحلہ وار ختم کیا جارہا ہے تاکہ صوبائی خزانے پر مالیاتی بوجھ کم ہو جائے اور ترقیاتی کاموں کے لئے وسائل دستیاب ہو جائیں۔ مگر سول ڈکٹیٹروں کے اس موقف میں کوئی صداقت نہیں۔حقیقت یہ کہ صوبے میں غریب، نادار اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا اور طالبات کا سبق پڑھنا سول ڈکٹیٹروں کو اچھا نہیں لگتا،ان میں سے بعض لائق بچے بڑے ہوکر افسر بنتے ہیں تو سیاست دانوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے
اس لئے وہ صوبے کے غریب اور نادار طبقے پر تعیلم کے دروازے بند کرنا چایتے ہیں۔ان کو یہ معلوم نہیں کہ شرح خواندگی میں انہی سرکاری سکولوں میں جانے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد ہی اضافہ کرتی ہے تاریخ میں اس صوبے پر بھارتی کانگریس کی حکومت رہی، انگریزوں کی حکومت رہی قیام پاکستان کے بعد فوجی حکمرانوں کی عملداری رہی کسی بھی حکومت نے غریب عوام کے بچوں پر مفت تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے، جنرل فضل حق اور جنرل افتخار حسین شاہ اگر غریب عوام کو اپنا دشمن سمجھتے تو آن کی آن میں سرکاری سکول اور کالج بند کر سکتے تھے۔ لیکن غریب عوام کے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی انہوں نے عوام کا حق چھیننے کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا اس لئے لوگ ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ان کے دور کو سنہرا دور قرار دیتے ہیں جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے موقف کا تعلق ہے اس میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی سیاست دانوں کے پاس سرکاری سکولوں اورکالجوں کی کارکردگی کوناپنے اور جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟ اگر بورڈ کے امتحان کو پیمانہ قرار دیا جائے تو یہ مضحکہ خیز اور ستم ظریفانہ بات ہوگی جب تعلیمی بورڈوں کا انتظام گورنر سے لیکر وزیر اعلیٰ کو دیا گیا ہے بورڈوں کے امتحانات
مذاق اور کھیل بن چکے ہیں پرائیویٹ سکولوں کے جن طلبا اور طالبات کو 98 فیصد یا 99 فیصد نمبروں سے پاس کرکے ٹاپ ٹوینٹی کے انعامات اور وظائف دیئے جاتے ہیں ان کی اکثریت انٹری ٹیسٹ میں 20 فیصد نمبر نہیں لیتی اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی بورڈوں میں سیاسی مداخلت ہوتی ہے تعلیمی بورڈوں سے باقاعدہ بھتہ لیاجاتا ہے جوابی اقدام کے طور پر وہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں سے بھتہ لیکر حاکموں کے مطالبات پورے کرتے ہیں اور یہ گھناونا کھیل سب کے سامنے ہوتاہے اگر کسی بورڈ کا چیرمین بھتہ دینے سے معذرت کرے تو اس کو معزول کرکے بورڈ کی ذمہ داری کسی غیر متعلقہ ادارے کو سونپ دی جاتی ہے اگر صوبائی حکومت سرکاری سکولوں اور کالجوں کا معیار بہتر بنانے میں مخلص ہے تو تعلیمی بورڈ گورنر کی ماتحتی میں دے دیئے جائیں یونیورسٹیاں بھی اصل چانسلر یعنی صوبائی گورنر کی نگرانی میں دے دیئے
جائیں۔ جہاں تک صوبے کے وسائل پر مالیاتی بوجھ کا تعلق ہے تو صوبے کے وسائل پر سب سے ناجائز اور ناروا بوجھ صوبائی اسمبلی اور صوبائی کابینہ کے اخراجات ہیں۔ صوبائی اسمبلی کو ختم کرکے اسمبلی کی عمارت کسی سیٹھ کو فروخت کی جائے، صوبائی کابینہ کو ختم کرکے تمام غیر ضروری اخراجات کی بچت کی جائے عوام حکومت کا ساتھ دینگے – صوبے کے غریب، نادار اور نچلے طبقے کے عوام کو ہر گاوں اور ہر قصبیمیں بارہ جماعت تک مفت تعلیم دینا صوبائی حکومت کی زمہ داری یے ماضی کے کسی بھی حکومت نے اس ذمہ داری سے انکار نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کو اپنے دامن پر اس طرح کا داغ لگا کر نہیں جانا چاہئے۔
فیض نے کیا بات کہی تھی! اک طرز تغافل ہے سو ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہینگے۔

