داد بیداد ۔ عوامی دانش اور لو ک ادب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جب دنیا میں سائنس اور ٹیکنا لو جی کا دور نہیں آیا تھا اُس وقت عوامی دانش سے کا م لیا جا تا تھا، گدھے کے کان لٹکے ہو ں تو لو گ پیش گوئی کر تے تھے کہ بر ف باری ہونے والی ہے، کسی زیر زمین سرنگ کی لمبائی نا پنی ہو تو چوہے کے گلے میں دھا گہ باندھ کر اندر چھوڑا جا تا تھا، چٹا نوں پر بسیرا کرنے واے والے پر ندے اگر درختوں پر بسیرا کر نے کے لئے گاوں کا رخ کر تے تو بادل، آندھی اور بارش کی پیش گوئی کی جا تی تھی طلو ع آفتا ب اور غروب آفتا ب کے وقت سورج کی گذر گاہ کے لئے ہر گاوں میں نشا نات ہوا کر تے تھے ان نشا نات کو دیکھ کر فصلوں کی بوائی کی جا تی تھی نئی نہر نکا لنے کے لئے ندی یا چشمے سے اڑنے والے پرندوں کی اڑان کو دیکھا جا تا تھا
پرندوں کا سایہ جن راستوں سے گذر تا ان راستوں کو نہر کے لئے ”لیول“ (Level) تصور کیا جا تا تھا جس زما نے میں سروے کے آلا ت نہیں تھے لیول کا یہی طریقہ تھا مخصو ص درختوں کے پتے فصلوں کے لئے جرا ثیم کش دوائی کا کام دیتے تھے ایک گاوں کا واقعہ مشہور ہے دھان کی پنیری کو کیڑے لگ گئے ادویات نے کوئی اثر نہیں کیا تو ایک بڑھیا نے اپنے پو تے سے کہا تم نیم کے پتے دھا ن کی پنیری میں ڈال کر دیکھو، نیم کے پتوں سے کیڑے ختم ہوئے، گاوں والوں نے دادی اماں سے پو چھا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ نیم کے پتوں سے پنیری کے کیڑوں کا علا ج ہوتا ہے دادی اماں بولی ہمارے بچپن میں اباجان پنیری کے کیڑوں کا یہی علا ج کر تے تھے، ایک بار کسی گاوں میں بڑے میاں سے پو چھا گیا
مہنگا ئی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے بڑے میاں نے کہا کوئی مہنگا ئی نہیں جب میں 12سال کا تھا تو ایک سیر آناج، ایک درجن انڈے اور ایک مر غی کے عوض جتنا سودا سلف آتا تھا آج میر اپڑ پو تا مذ کورہ جنسوں کے بدلے وہی سودا سلف اُسی مقدار میں لے آتا ہے، یہ بڑے میاں کی عوامی دانش ہے جس کو معا شیا ت کے جدید ترین نظر یات نے درست ثا بت کیا ہے آج نو بل انعام یا فتہ پرو فیسر امر تیا س یہی کہہ رہا ہے کہ جس کے ہا تھ میں پیداوار کے ذرائع ہونگے وہ افراط زر سے متا ثر نہیں ہو گا آنے والے زما نے میں غر بت کو ڈا لر کی جگہ پیدا واری ذرائع سے نا پا جا ئے گا یہ چند مثا لیں عوامی دانش کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کر تی ہیں اس دانش کو روایتی علم، لو ک ادب یا لو ک ورثہ بھی کہا جا تا ہے
اس روایتی علم و دانش کو محفوظ کر نے کے لئے 1972ء میں لو ک ورثے کا قومی ادارہ فیض احمد فیض کی تجویز پر قائم کیا گیا تھا 1970اور 1980کی دو دہا ئیوں میں لو ک ورثہ کے قومی ادارے نے پورے ملک سے لو ک فنکا روں کا البم تیا رکیا، مقا می دستکاروں کی کونسل قائم کی، سالا نہ لو ک میلہ کی صورت میں ہر سال عوامی دانش کے تحفظ اور فروغ کا اہتمام کیا دستا ویزی فلموں کا سلسلہ جا ری کیاا ور لو ک ورثے پر تحقیقی کتا بوں کی اشا عت کا انتظام کیا، دفتر خا رجہ کے تعاون سے پا کستان کا لو ک ورثہ بیرون ملک پا کستا نی سفارت خا نوں کے ذریعے دنیا بھر میں متعا رف ہوا اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یو نیسکو نے لو ک ورثہ کے کام کو تسلیم کیا اس طرح گمنا م فنکا روں کو پرائڈ آف پر فارمنس ملا، طفیل نیا زی سے لیکر علن فقیر تک بے شمار فنکاروں کو قومی افق پر نا م کما نے کا موقع ملا،
لو ک تما شا اتنا مقبول ہو ا کہ جنو بی ایشیا کے کئی مما لک نے اس کی تقلید کی مگر 1990ء کی دہا ئی کے بعد پا کستان کی عوامی دانش اور لو ک روا یات کے تحفظ کا کام ما ند پڑ گیا 2010ء میں بر طانیہ سے آنے والے کنسلٹنٹ سلما ن آصف نے ایف سکس اسلا م اباد میں لو ک ورثہ اشا عت گھر کو ڈھونڈ ا تو ان کو بتا یا گیا کہ اشاعت گھر بند ہو چکا ہے انہوں نے گارڈن ایو نیو شکر پڑیاں میں لو ک ورثہ کی تین منزلہ لائبریری کا دور ہ کیا تو40فٹ اونچی چھت کے نیچے خو بصورت سیڑھیوں کے ساتھ پرا سرار الما ریوں میں لاکھوں کیسٹ نظر آئے عما رت کی دھیمی روشنی میں انہوں نے ساونڈ لائبریری کے محا فظ سے پو چھا یہ سب کیا ہے اُس نے کہا یہ قبرستان ہے اور یہاں پا کستانی فنکاروں کی لا کھوں آوازیں دفن ہیں، ان کے ورثا کو بیدخل کیا گیا میرا کام قبروں کی رکھوالی ہے ساونڈ لا ئبریری اور نیشنل ارکائیو کا محا فظ کوئی دانش ور شخص تھا
اُس نے یہ نہیں کہا کہ سیا سی مداخلت نے ادارے کا بیڑہ غر ق کر دیا ہے کسی نے سچ کہا یا د ما ضی عذاب ہے آج مجھے لو ک ورثہ شکر پڑیاں کے عروج کا زما نہ یا د آتا ہے با نی ایگزیکٹیو ڈائر یکٹر عکسی مفتی نے کیسے کیسے نا بغہ روزگار لو گوں کی ٹیم بنا ئی تھی مظہرا لا سلا م، آدم نئیر، اقبا ل جتوئی، شمیم زیدی، فاروق قیصر، نسیم اللہ راشد، خا لد جا وید، محمد علی، یوسف ہا رون اور کیمرہ مین ساجد منیر، اس ٹیم کا ہر ممبر لو ک ورثہ کو اپنے بچوں کی طرح چاہتا تھا آج ایک بار پھر اس جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے گلو بل وار منگ نے دستکا ریوں کو خطرے سے دو چار کر دیا ہے
مو سمیا تی تغیر نے فنکا روں کو نقل مکا نی پر مجبور کیا ہے، سوشل میڈیا نے نئی نسل کو روا یتی علم اور ثقا فتی ورثے سے دور کر دیا ہے، آج عوامی دانش کو نئے اسلو ب میں کارٹون، گیم اور مختصر فلموں کی صورت میں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے آج ہماری نئی نسل کو ٹام اینڈجیری کے بجا ئے ”انگا ک بانگا گ“ جیسی کہا نیوں سے روشنا س کرنے کے لئے نئے سرے سے کا م کرنے کا تقا ضا ہو رہا ہے اگر لو ک ورثہ کو ایک با ر پھر عکسی مفتی کی طرح بصیرت، جذبہ اور مہا رت رکھنے والی قیا دت مل جا ئے تو عوامی دانش کا علم دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔