وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے ”ڈیجیٹل پیمنٹس ایکٹ 2025“ کی منظوری دیدی
پشاور (نمائندہ چترال ٹائمز ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے صوبے میں جدید اور شفاف معاشی نظام کے فروغ کے سلسلے میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر ”ڈیجیٹل پیمنٹس ایکٹ 2025“ کی منظوری دے دی ہے، جسے کابینہ کے اجلاس میں باضابطہ منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے ساتھ خیبر پختونخوا پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے لیے جامع قانونی فریم ورک تیار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے حکومت، کاروباری اداروں اور سروس سیکٹرز میں ادائیگیوں کا نظام کیو آر کوڈ کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگیوں پر منتقل کیا جائے گا جس کے بعد ڈیجیٹل ادائیگی لازمی ہوگی۔ ادائیگیوں کے ڈیجیٹل نظام کی وجہ سے شفافیت، سہولت اور مالی تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نئے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے کاروباروں کو دو سال تک ڈیجیٹل پیمنٹس پر کسی بھی نئے سیلز ٹیکس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جبکہ ڈیجیٹل ادائیگی قبول کرنے سے انکار یا اس پر اضافی چارجز لینا خلافِ قانون ہوگا۔ اس قانون کا مقصد مالی شمولیت کو فروغ دینا، نقدی کے استعمال میں کمی لانا اور صوبے کی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔ مزید برآں صارف اور کاروبار دونوں کے ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنایا جائے گااور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کا پورا نظام عالمی معیار کے مطابق ہوگا۔
سہیل آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ عوام کی سہولت کے لیے صوبے کے بازاروں اور تجارتی مراکز میں پبلک وائی فائی اور دیگر ڈیجیٹل خدمات کی فراہمی کے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیمی نصاب میں مالی اور ڈیجیٹل خواندگی شامل کی جائے گی جبکہ ضلع کی سطح پر قانون کے نفاذ، تربیت اور کاروباری برادری کی آن بورڈنگ کو آسان بنایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا جلد پاکستان کی پہلی کیش لیس معیشت کا ماڈل صوبہ بنے گا اور اس تجربے سے وفاق اور دیگر صوبوں کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کا نظام موجودہ دور کی اشد ضرورت ہے۔ نئے نظام سے نا صرف عوام اور کاروبار کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ یہ گورننس کے مجموعی نظام کو بھی بہتر بنانے میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔اسی طرح ڈیجیٹل پیمنٹس کے نظام کے فروغ سے بدعنوانی کے امکانات کم ہوں گے،ریونیو کلیکشن مستحکم ہو گی، پالیسی سازی کیلئے ڈیٹا پر مبنی فیصلوں کی راہ ہموار ہو گی، ادارہ جاتی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور سب سے بڑھ کر عوام کے اداروں پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

