دھڑکنوں کی زبان ۔”چترال کی مٹی نے چترال کے بیٹے کی لاج رکھی “۔محمد جاوید حیات
چترال کے بیٹے نے کوٸی ایسا کمال نہیں کیا تھا کہ چترال کی مٹی کو ایسا پیارالگے بس اپنی مٹی کی لاج رکھی تھی اپنی کالی وردی کو اور وطن کی خاک کو اپنے خون کے چند قطروں سے رنگین کیا تھا ۔۔یہ ایسی قربانی تھی جو ہر غیرت مند چترالی کا خواب ہے۔۔۔ وطن پہ قربان ہونا اور وطن کی خدمت کے لیے کسی ذمہ دار کرسی پہ بیٹھ کے اپنے چترال کو نہ بھولنا اس کی خدمت کرنا ان کی پہچان ہے یہ سب مانتے ہیں کہ جب چترالی غیرت پہ آجاۓ تو ناممکن کو ممکن بناتا ہے ۔صداقت کی قندیل روشن کرتا ہے ہمت کی چٹان بن جاتا ہے ۔
چترال کا بیٹا ہنگو میں ڈیوٹی کے دوران دہشت پھیلانےوالوں سے لڑا تھا ۔چترالی تھا اس لیے بے خوف پہلی صف میں لڑا تھا زخمی ہوا تھا اس کو اس کے زخم پیارے لگے تھے وہ زخمی شیر کی طرح بے چین تھا اس کا کوٸی جوان زخمی نہ ہو ۔۔۔شکر ہے ایسا کچھ نہیں ہواتھا اس لیے وہ مطمین تھا۔اس کا چترال اس سے خوش تھا کہ اس نے اس مٹی کی لاج رکھی تھی ۔اس کے وطن کی مٹی گواہ بن گئی تھی کہ اس نے اس کی عقیدت کا حق ادا کیا تھا ۔چترال کے بیٹے کی زخمی ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔سب افسردہ تھے سارے چہرے پژمردہ تھے اس کی صحت اور زندگی کی دعائیں مانگی جارہی تھیں ۔کوہاٹ میں چترال کے بیٹے ڈی سی عبدالاکرام صاحب کی نگرانی میں علاج ہوا۔فرزند اجنوفاروق احمد پل پل کی خبروں سے اس کے خاندان کو آگاہ کررہاتھا سی ایم ایچ کوہاٹ میں چترال کی بیٹی ڈاکٹر حینا نذیر اپنے رشتے کے چچا کے زخم دہو رہی تھیں وہ اس کی قربانی سے مطمین تھیں۔۔
وزیر اعظم پاکستان کا پروٹوکول آفیسر معراج چترال کے بیٹے کا پڑپوتا تھا ہسپتال میں پل پل اس کے سرہانے کھڑا رہا۔چترال کے بیٹے ایس پی ظفر اور ایس پی عمران پہنچ گئے تھے چترال کے بیٹے کو پشاور سی ایم ایچ شفٹ کیا گیا تھا ۔۔اس کے ارد گرد ڈائریکٹر بشارت احمد ،ڈایرکٹرس رخسانہ،ایس پی ظفر ،ایس پی عمران کھڑے تھے ان کا حوصلہ بلند تھا چترال کی مٹی بہادروں کی مٹی ہے ۔پھر بیمار پرسوں کا تانتا باندھا ہوا تھا گورنر سے لے کر وزیر اعلی تک وزرا سے لے کر أفیسر شاہی تک سب آجا رہے تھے قربانی چند قطرہ خون کی تھی مگر امن اور آزادی کے لیے تھی آزادی کے بعد امن بہت ضروری تھا اس کے لیے لہو کے چراغوں کی ضرورت تھی یہ چراغان چترال کے حصے میں آیا تھا۔پشاور میں موجود چترال کے سارے آفیسرز بیٹے ہسپتال آ جا ریے تھے
سارے مطمین تھے سب کے حوصلے بلند تھے سب کی آنکھوں میں صفت شاہینی عیان تھی ۔سب کی سانسوں سے قربانی کی خوشبو آرہی تھی ۔۔ان کے تیماردار بھاٸی سب کے آگے سراپا سپاس تھے سب کے شکر گزار تھے ۔چترال کے بیٹے کو ہسپتال سے فارغ کیا گیا ۔ان کی چترال کی طرف روانگی ہوئی ۔ان کو شاباش دینے والوں کا پہلا قافلہ لاواری ٹنل پہنچ گیا تھا ان میں ان کے فورس کے أفیسرز ،جوان ،ان کے خاندان کے بڑے ان کے بہی خواہ دوست احباب موجود تھےان کو عقیدت کے ہار پہناۓ گئے ان پر پھول نچھاور کیے گیے ۔ان کوسینے سے لگایا گیا ۔یہ چترال کی مٹی پراس کا پہلا قدم تھا۔پھر راستے میں جگہ جگہ محبت کا اظہار کیا گیا دروش بازار میں محبت کرنے والوں کا ہجوم تھا ۔قاری جمال ناصر کا انداز اور اظہار محبت دیدنی تھی ۔انہوں نے چترال کے بیٹے کو خراج تحسین پیش کیا ۔چترال کے بیٹے نے کہا کہ میری پیشے کی تربیت دروش میں ہوٸی ہے دروش میرے لیے تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے میں نے ہمت اور غیرت اورشرافت اس سر زمین سے سیکھی ہے ۔۔پھول کہ پیش ہورہے تھے الفاظ کے موتی تھے کہ بکھر رہے تھے نعرے تھے کہ بلند ہو رہے تھے
ارسون میں چترال کے شہید بیٹوں کے لیے دعا کی گئی ۔۔آگے چترال کے بیٹے کی منزل ایسی ہی تھی ۔پھول تھے دعائیں نیک خواہشات کا اظہار تھا ۔چترال پولیس ساتھ تھی ۔۔چترال بازار میں آل پارٹیز کا بڑا سا استقبالی اجتماع تھا ۔۔سٹیچ پہ ان کو بیٹھایا گیا ہار پہنایا گیا ۔ان کے قریبی ایک دو رشتہ دار بھی سٹیچ پہ ساتھ بیٹھے ۔۔آل پارٹیز کے لیڈروں ایڈوکیٹ عبدالولی خان ،وجیہ الدیں ۔عیدالحسین نے اپنے بیٹے کو خراج تحسین پیش کیا ۔گوجر قوم کے نمایندہ مولانا ناصر کو اس بات پہ کفت ہوٸی کہ چترال کے بیٹے کو بار بار کھو قوم کا بیٹا کہا گیا لیکن چترال کا بیٹاکھو، کلاش گوجر اور چترال کے پٹھان باشندوں کا بیٹا ہے مولانا اسرارالدین الہلال آیات جہاد کی شرین تلاوت تھی ۔ایڈوکیٹ کوثر سٹیچ فرمارہے تھے ۔۔چترال کے بیٹے نے سب کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا ۔۔انہوں نے کہا کہ میرے خون کے صرف چند قطرے آپ کے امن کی خاطر بہہ چکے ہیں
مزید خون کی ضرورت ہو تو ایک ایک قطرہ حاضر ہے میرااکلوتا بیٹااور میرا خاندان اس مہا کام میں میرے ساتھ شریک ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آپ کی محبتیں اس بات کے گواہ ہیں کہ پوری قوم کو امن اور آزادی سے کتنی محبت ہے اگر اس کے لیے کوئی قربانی پیش کی جاۓ تو اس قربانی کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے ۔چترال کے بیٹے کی قربانی نے ثابت کیا کہ چترال بہادروں ،مخلصوں اور سر فروشوں کی سر زمین ہے ۔یہ عظمتوں ،محبتوں اور وفا کی سرزمین ہے یہ شرافت اور معیار کی سر زمین ہے ۔
چترال کی مٹی نے اپنے بیٹے کو خوب شاباش دیا ۔۔چترال کا بیٹا اس کے باشندوں اور اس کی محبت کا مقروض ہوگیا ۔عقیدت کی لسٹ بہت لمبی ہے محبت کے سوغات بہت زیادہ ہیں لندن سے اس کی پڑ پوتی جب فلایٹ پہ پہنچی تو پوچھا یہ چترال کی مٹی اتنی وفادار کیوں ہے اس نے جواب دیا کہ اس لیے کہ یہاں پر محبت کی بیج کاشت کی جاتی ہے ۔پشاور میں موجود سارےچترالی أفیسرز جن کی لمبی فہرست بنتی ہے۔کن کن موتیوں کا ذکر کیا جائے۔۔پشاور میں موجود سارے چترالی جن کی محبتوں کی قیمت نہیں لگاٸی جا سکتی چترال کے بیٹے کو اس بات پہ فخر ہے کہ وہ ان لوگوں میں پلابڑھا ہے ۔جب قاضی نسیم نے اپنی تقریر میں کہا کہ سلام اس بہادر ماں پر جو اس کے دنیا میں آنے کا سبب ہوٸی سلام اس بہادر باپ کو جس نے اس کی ایسی پرورش کی تو لگا کہ قاضی صاحب کیوں نہیں کہتا کہ سلام چترال کی اس مٹی کو کہ اس کے دامن میں ہیرے پنبتے ہیں ۔۔۔خطیب شاہی مسجد مولانا خلیق الزمان کی دعا کے الفاظ رب کے حضور امن کی التجا اور چترال کے بیٹے کی عافیت کی دھائی تھی ۔۔۔


