بونی بزند روڈ کیس کی سماعت: پشاور ہائی کورٹ سی اینڈ ڈبلیو اور ٹھیکیدار پر شدید برہم، سی اینڈ ڈبلیو اور ایکسین پبلک فنڈزہڑپ کرنا چاہتے ہیں: عدالت کے ریمارکس
سوات (نمائندہ چترال ٹائمز ) بونی-بزند تورکہوروڈ میں تاخیر اور پی سی ون کے مطابق معیاری کام نہ ہونے کے خلاف ٹی ٹی آر ایف کی طرف سے دائر پٹیشن کی سماعت منگل کے روز پشاور ہائی کورٹ کے سوات بینچ (دارالقضا) میں ہوئی جس کے دوران عدالت نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور پراجیکٹ کے ٹھیکیدار پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسین اور دیگر حکام ٹھیکیدار کے ساتھ مل کر منصوبے کے فنڈ ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔
پٹیشن ٹی ٹی آر ایف (TTRF) کے بانی اور سرپرست وقاص احمد ایڈووکیٹ نے تورکھو تریچ یوسی کے عوام کی جانب سے 2023 میں دائر کی تھی۔ اس کیس میں ٹی ٹی آر ایف کی جانب سے پٹیشن کی پیروی وقاص احمد ایڈووکیٹ اور سید احمد خان ایڈووکیٹ نے کی۔
پچھلی سماعت کے بعد عدالت نے اپنے تحریری حکم میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور ایکسین سی اینڈ ڈبلیو اپر چترال کو حکم دیا تھا کہ وہ اس پراجیکٹ کے ورک پلان کے حوالے سے مفصل رپورٹ عدالت میں جمع کرے۔ عدالت نے منصوبے کے لیے مختص فنڈز، ان کی ریلیز اور استعمال اور دیگر تفصیلات بھی طلب کر رکھی ہے۔ عدالت نے سی اینڈ ڈبلیو اور ایکسین کو حکم دیا تھا کہ وہ پراجیکٹ کی متوقع تکمیل کے دورانیے اور اس پر جاری کام کے حوالے سے بھی رپورٹ یکم جولائی کو عدالت میں جمع کرائیں۔
منگل کو جب سماعت ہوئی تو سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسین اور دیگر حکام کسی ورک پلان، کام پر پیش رفت اور کام مکمل کرنے کی ڈیڈلائن کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کرنے میں ناکام ہوئے۔ جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملے کو ایسے جانے نہیں دیں گے۔
طویل سماعت کے بعد عدالت نے اپنا تحریری حکمانہ جاری کیا جس میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو، اس کے ایکسین، ایس ڈی او اور متعلقہ ٹھیکیدار پر شدید برہمی کا اظہار کیا گیا۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو آئندہ سماعت پر خود یا سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو کے تواسط سے طلب کیا۔
عدالت نے تحریری حکمانہ جاری کیا جس کا متن یہ ہے کہ ’پٹیشن کی گذشتہ سماعت پر ایگزیکٹو انجینئر، کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ، اپر چترال (جواب دہندہ نمبر 5) اس عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور منصوبے کی تکمیل کے لیے پہلے سے جاری کردہ ورک پلان کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کی۔ انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سات دن کے اندر یہ رپورٹ جمع کرائیں، جس میں پیش رفت کی تازہ صورتحال اور تکمیل کے متوقع وقت کا بھی ذکر ہو۔ تاہم، وہ آج عدالت میں مطلوبہ رپورٹ کے بغیر پیش ہوئے اور صرف ایک صفحے پر مشتمل جدول کی شکل میں خلاصہ پیش کیا، جو کہ عدالت کی ہدایت پر مکمل عملدرآمد نہیں ہے۔
صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے، ٹھیکیدار (جواب دہندہ نمبر 7) نے اب ایک انوکھی اور غیر مناسب درخواست کی ہے کہ اُسے 279.922 ملین روپے کے اضافی معاوضے کے ساتھ 100 فیصد ایڈوانس ادائیگی کی جائے، اور صرف اسی صورت میں وہ اکتوبر 2025 تک منصوبے کی تکمیل کو یقینی بنا سکے گا۔ اس مؤقف کی نہ تو کسی معاہدہ جاتی ((contractual پریکٹس پر حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ پبلک پروکیورمنٹ کے رائج اصولوں کے مطابق ہے۔ جواب دہندگان (ٹھیکیدار اور ایکسین) کی جانب سے اپنایا گیا یہ مؤقف سراسر ناقابل قبول ہے اور عوامی منصوبہ بندی یا contractual practice میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ بات عام فہم ہے کہ تعمیری معاہدے، خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، مکمل پیشگی ادائیگی کی اجازت نہیں دیتے۔
اس طرح کی تجویز معاہداتی اصولوں، مالی ذمہ داری کے اصولوں اور آڈٹ کے طے شدہ قواعد کے بالکل منافی ہے۔ لہٰذا، مکمل رقم کی پیشگی ادائیگی کا مطالبہ نہ صرف غلط فہمی پر مبنی ہے بلکہ یہ تاثر بھی پیدا کرتا ہے کہ جواب دہندگان منصوبے کی تکمیل سے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ امر انتہائی تشویشناک ہے کہ 16 سال سے زائد عرصہ گزرنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ کی فراہمی کے باوجود، محض 28 کلومیٹر کے اس منصوبے کی تکمیل ممکن نہ ہو سکی۔
یہ صورتحال انتہائی غفلتِ منصبی، انتظامی بے حسی اور نظام کی ناکامی بلکہ ممکنہ دانستہ کوتاہی کی عکاسی کرتی ہے۔ ٹھیکیدار اور ایکسین اور دیگر جواب دہندگان کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ملی بھگت سے عوامی فنڈز ہڑپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عدالت یہ حقیقت نظرانداز نہیں کر سکتی کہ اس اہم انفراسٹرکچر منصوبے کی مسلسل تاخیر حکومتی نظام پر منفی اثر ڈالتی ہے اور ادارہ جاتی احتساب پر عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔
ان حالات میں، یہ معاملہ معزز چیف سیکرٹری، حکومت خیبر پختونخوا کو بھیجا جاتا ہے، جو اس کیس کی مکمل تحقیقات کروا کر ذمہ دار اہلکاروں کا تعین کریں گے۔ چیف سیکرٹری یا تو خود عدالت میں پیش ہوں یا سیکرٹری، کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ (جواب دہندہ نمبر 3) کو ہدایت دیں کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں، اور ساتھ میں ورک پلان، ایک جامع پیش رفت رپورٹ، موجودہ صورتحال، تاخیر کی وجوہات، اور تکمیل کے متوقع وقت کا مکمل خاکہ بھی پیش کریں۔‘
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ جس طرح کا معاملہ اس پراجیکٹ میں سی اینڈ ڈبلیو اور ان کے حکام کا ہے یہ سراسرا نیب کا کیس بنتا ہے۔
اس موقع پر وقاص احمد ایڈوکیٹ نے عدالت سے گزارش کی کہ کسی بھی تحقیقات کے نتیجے میں اس اہم منصوبے پر کام نہیں رکنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف علاقے کے لوگ متاثر ہونگےبلکہ تاخیر کی صورت میں پراجیکٹ کی کاسٹ مزید بڑھ جائے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ اس اہم منصوبے پر کام کو روکنے نہیں دے گا بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس پر کام جلد از جلد مکمل ہو۔دونوں مقدمات کی دوبارہ سماعت 15 جولائی کو ہو گی۔