اخوند سالاک کی مہمات: ڈوما، نغرشو اور بیرا کے خلاف جدوجہد. تحریر و تحقیق: نجیم شاہ
اخوند سالاک سترہویں صدی کے مشہور عالم، فقیہہ، مؤرخ، غازی اور صاحبِ تصنیف بزرگ تھے جنہوں نے دیر کوہستان، سوات کوہستان، انڈس کوہستان اور دردستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ اُن کی جدوجہد نے اس خطے کے قبائل کو نئی روحانی سمت عطا کی۔ داردی قبائل کے طاقتور سرداروں کے خلاف اُن کی کارروائی کا آغاز ڈوما کافر سے ہوا، جو اس وقت ایک منظم ریاست کا حکمران تھا۔ اخوند سالاک کی قیادت میں یہ مہمات نہ صرف عسکری کامیابیوں کا سلسلہ تھیں بلکہ اسلام کی دعوت کو دور دراز پہاڑی علاقوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بنیں۔
ریاستِ ڈوما دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تھی اور اس میں بونیر، شانگلہ، تورغر، بشام اور چکسیر جیسے علاقے شامل تھے۔ یہ ریاست قدیم دردستان سے نسبت رکھتی تھی اور اس کا آخری حکمران ڈوما کافر کہلاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق ڈوما کالاشی حکمران تھا، جبکہ دُوسری روایت اسے چھلیس قوم سے جوڑتی ہے۔ چھلیس یا چھلیسی ایک لسانی و ثقافتی گروہ ہے جو داردی خاندان کا حصہ ہے۔ اس قبیلے کی کئی ذیلی شاخیں ڈوما کو اپنا جداعلیٰ اور دارد قبائل کا آخری بادشاہ سمجھتی ہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ڈوما کا تعلق چھلیس قوم سے تھا۔
1644ء میں محمد اکبر شاہ المقلب بہ اخوند سالاک نے کوہِ سیاہ کے مقام پر اس ریاست کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ ڈوما کافر کی شکست اور قتل کے ساتھ ہی ریاست کا خاتمہ ہو ا اور دردستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا دروازہ کھل گیا۔ ڈوما کی ہلاکت کے بعد بہت سے داردی قبائل اباسین کوہستان، چترال اور گلگت کی طرف ہجرت کر گئے اور اسلام کی دعوت مزید وسعت اختیار کر گئی۔ اخوند سالاک نے اُن کا تعاقب کیا اور اسلام کی شمع کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا۔
ڈوما کے خاتمے کے بعد اخوند سالاک نے اپنی توجہ جنوبی چترال کی طرف مبذول کی۔ یہاں نغرشو نامی سردار کے خلاف اُن کی مہمات مشہور ہیں۔ روایت ہے کہ عشریت کے ایک نو مسلم خاندان نے دیر کوہستان جا کر اخوند سالاک کو نغرشو کے خلاف جہاد کی دعوت دی اور تعاون کی پیشکش کی۔ اس پیشکش کے جواب میں اخوند سالاک نے لشکر تیار کیا اور جنوبی چترال کی طرف پیش قدمی کی۔ نغرشو کے خلاف یہ مہم اس قدر کامیاب رہی کہ بہت سے دردی قبائل دیر و دند کے پہاڑوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نغرشو کافر کالاشہ تھا اور اُس کی شکست کے بعد چترال میں اسلام کی جڑیں مزید مضبوط ہوئیں۔
جنوبی چترال کے قصہ کلکٹک میں شہیدو زیارت کے نام سے مشہور مقبرہ بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے۔ روایت ہے کہ یہاں مدفون شخص اسلام کی تبلیغ کے لیے آیا تھا جسے کالاشہ کافروں نے شہید کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اخوند سالاک کا مرید تھا، جو اُن کی ہدایت پر یہاں پہنچا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شہیدو زیارت کا مقبرہ چترال کے جلاوطن حکمران محترم شاہ کا ہے، جو کلکٹک میں کفار کے ہاتھوں قتل ہوا۔ تاہم محققین کے مطابق اُن کے بیٹے نے جنازہ چترال منگوایا اور بروز مقام میں بڑے احترام سے دفن کیا۔ لہٰذا شہیدو زیارت کا مقبرہ غالب امکان ہے کہ اخوند سالاک کے ہی کسی مرید کا ہو۔
اخوند سالاک کی مہمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح اُنہوں نے ڈوما کافر، نغرشو کافر اور بیرا کافر کے خلاف جدوجہد کر کے دردستان کو کافرستان سے مسلمان دردستان میں بدل دیا۔ اُن کی خدمات نہ صرف مذہبی بلکہ تاریخی اعتبار سے بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے قبائل کو اسلام سے روشناس کرایا اور اُن کی سماجی و ثقافتی زندگی کو نئی بنیاد فراہم کی۔ آج بھی اُن کا نام عقیدت اور احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور اُن کی جدوجہد کو اس خطے کی اسلامی تاریخ کا سنگِ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

