اخری پناہ گاہ ۔ تحریر: عبد الباقی
مرغی ایک بے زبان جاندار ہے۔ وہ اپنی چوزوں کا نہایت خیال رکھتی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ بلی، عقاب یا آوارہ کتوں جیسے کسی بھی خطرے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہے۔ جیسے ہی اسے کوئی خدشہ محسوس ہو، وہ مخصوص آواز نکالتی ہے اور منتشر چوزے فوراً ماں کے پروں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اُن پروں کے نیچے وہ خود کو دنیا کے ہر خطرے سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ یوں مرغی کے پر اُن کے لیے دنیا کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہوتے ہیں۔
ہمارے کپتان صاحب بھی اپنے دورِ اقتدار میں جب کبھی اپوزیشن سے کوئی سیاسی خطرہ محسوس کرتے، تو وہ جنرل باجوہ کے مضبوط پروں کے نیچے چھپ کر خود کو ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ تصور کرتے اور اطمینان سے حکمرانی کے مزے لیتے تھے۔
جنرل باجوہ کے یہ ’’پر‘‘ حقیقت میں کپتان کی محفوظ ترین پناہ گاہ تھے۔ اسی پناہ گاہ کے سائے میں کپتان نے نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانا گوارا نہ کیا بلکہ انہیں چور، ڈاکو، لٹیرا اور ڈیزل جیسے القابات سے نوازتے رہے۔ انہیں اس بات کا بھی پورا بھروسا تھا کہ نظامِ انصاف کے ایک سابق منصفِ اعلیٰ نے انہیں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ عطا کر رکھا ہے۔
مگر جب اقتدار ختم ہوا تو فارن فنڈنگ، توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات میں عدالتوں کے سامنے بہت کچھ بے نقاب ہوگیا۔ نتیجتاً وہی سرٹیفکیٹ عطا کرنے والے منصفِ اعلیٰ بھی ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئے۔
ماضی کے ایسے عدالتی فیصلوں نے پاکستان کی بدنامی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ سیاست کے موسم بھی بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ کچھ عرصے کی گرمجوشی کے بعد کپتان اور باجوہ کے تعلقات سرد پڑ گئے، اور یوں کپتان ایک بار پھر اس محفوظ پناہ گاہ سے محروم ہو کر بے یارومددگار رہ گئے۔ چند ہی مہینوں بعد پیرنی صاحبہ کی دعاؤں اور کرامتوں سے نظامِ انصاف کی ایک اور منصفِ اعلیٰ اُن پر مہربان ہوئی اور ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر انہیں نئی پناہ گاہ میسر آگئی۔
کبھی کبھی کپتان جذبات میں آکر اس پناہ گاہ سے باہر نکلتے، اپنی برطرفی کو بیرونی سازش قرار دیتے اور اپنے سابق سرپرستوں کو میر جعفر و میر صادق کے القابات سے نوازتے۔ پھر دوبارہ اسی محفوظ پناہ میں بے خوف آرام فرماتے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب منصفِ اعلیٰ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ ’’فرمان‘‘ صادر کیا کہ کپتان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو کیونکہ ’’وہ میرا لاڈلا ہے‘‘۔ مگر مدتِ ملازمت ختم ہوتے ہی کپتان دوبارہ پناہ سے محروم ہوگئے۔ اس بار بھی پیرنی نے انہیں تسلی دی کہ “دنیا امید پر قائم ہے، گھبرانا نہیں۔”
پیرنی کی روحانی کرامت کے اثر سے کارکنوں نے زمان پارک کے گرد حصار کھڑا کر دیا۔ وہ اتنی شدت سے حفاظت پر مامور تھے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جانا تو دور، وہاں پرندہ تک پر نہ مار سکتا تھا۔ مگر 9 مئی 2023 کے واقعے نے وہ پناہ بھی چھین لی اور کپتان کو زمان پارک سے اٹھا کر پہلے اٹک، پھر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ قیدی نمبر 804 بنے۔ کارکن مایوس ہوئے تو کپتان نے پھر وہی کہا: “گھبرانا نہیں۔”
انہیں یقین دلایا گیا کہ 26 نومبر 2024 سے انہیں ایک اور محفوظ پناہ گاہ میسر آنے والی ہے۔ کارکنوں کے چہرے کھل اٹھے، مگر وقت آیا تو خوشیوں کی جگہ مایوسی نے لے لی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کپتان کے لیے ملک میں کوئی محفوظ پناہ گاہ دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اڈیالہ جیل ہی کپتان کی آخری پناہ گاہ ثابت ہو۔

