میرٹ کی پذیرائی کی تقریب – تحریر: ظہیر الدین
1979ء سے 1983ء تک ڈسٹرکٹ کونسل چترال کا چیرمین الحاج خورشید علی خان کہا کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں ایف۔ ایس سی میں سیکنڈر ڈویژنر ز نہ ملنے کے باعث میڈیکل کالجوں میں چترال کی مخصوص نشستیں خالی رہ جانے کی وجہ سے انہوں نے گورنر فضل حق سے درخواست کی تھی کہ یونیورسٹی کے رولز میں چترال کی ڈومیسائل رکھنے والوں کے لئے نرمی لاتے ہوئے تھرڈ ڈویژن کے حامل امیدواروں کو داخلے کا اہل بنایا جائے۔ ایک وہ زمانہ تھااور ایک یہ زمانہ جب ایف۔ ایس سی میں 90فیصد سے ذیادہ نمبر حاصل کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں جوکہ اس علاقے میں کوالٹی ایجوکیشن کی نوید مسرت ہے۔ مجھے اس کا احساس آغا خان ہائر سیکنڈری سکول سین لشٹ چترال میں منعقدہ Merit Citation ceremony میں شرکت کے بعد ہوا جس میں آغا خان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈکے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں نمایان پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کو اور ساتھ ان کے معمار اساتذہ کرام کو انعامات اور توصیفی اسناد سے نوازے گئے۔
چترال میں کوالٹی ایجوکیشن کے حوالے سے آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان کا کردار مسلمہ ہے اور ہرسال اہتمام کے ساتھ ان تقریبات کو منعقد کرنا بھی ا س تنظیم کا طرہ امتیاز ہے جس سے خوب سے خوب تر کا سفر جاری و ساری ہے۔
چترال کی نواحی بستی سین لشٹ میں برلب گرم چشمہ روڈ پر واقع آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوکر ہال پہنچنے تک معلوم ہواکہ ہر قدم پر سلیقہ، قرینہ اور میرٹ کا دور دورہ اور راج ہے۔ جنرل منیجر بریگیڈئر خوش محمد خان نے دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اپنے پلکوں کے واک تھرو گیٹ سے ہمیں گزار دیا جس کے بعد رجسٹریشن ڈیسک میں اپنا نام ان خوش قسمتوں کی فہرست میں لکھوانے کے بعد اندرونی گیٹ کے سامنے کھڑے کھڑے گرم اور کڑک چائے کا کپ مزہ لے کر کم امیز اور دلاویز پرنسپل طفیل نواز کو داد اور دعا دے کر پروٹول کے ساتھ ہال میں اپنے لئے مخصوص نشست پر بیٹھ گئے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا تو محسوس ہوا کہ نظامت کے لئے جن طلباء وطالبات کو منتخب کئے گئے تھے وہ بھی میرٹ پر لئے گئے تھے جوکہ انتہائی خود اعتمادی اور برجستگی کے ساتھ کمپیرنگ کررہے تھے اور بار بار دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی یاد دلارہے تھے۔ تلاو ت کلام پاک اور قومی ترانے کے بعد اسٹیج پر ٹاک شو سجا یا گیا جس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں نمایان پوزیشن لینے والے طلباء وطالبات نے اپنی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بعض نے کہاکہ سیشن کے شروع سے ہی کم مگر مستقل مزاجی سے کلاس ورک پر توجہ دینا، کلاس رو م میں روزانہ کے حساب سے اپنے آپ کوجانچنا اور تجسس پیدا کرنا بتادیا تو کسی نے امتحان کے قریب ذیادہ سے ذیادہ توجہ دینا اور اجتماعی مطالعہ کو مفید قرار دیا جبکہ کسی نے نہایت مشکل گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہاکہ stressکو productivityمیں بدل دیا جائے جسے disasterکو opportunityمیں بدلنا کہاجاتا ہے۔ اسٹیج شو میں اعتزاز، افروزہ، ام کلثوم، عذرا، ساجد اور جواد نے میزبان سارا کے سوالوں کا جواب نہایت اعتماد کے ساتھ دیتے رہے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں نمایان پوزیشن لے کر ملک کے ممتاز تعلیمی اداروں بشمول آغا خان میڈیکل کالج، LUMS، آئی بی اے اور جی آئی کے میں داخلہ لینے والے طلباء طالبات نے ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اپنی کامیابی کے قصے بیان کرتے رہے جن سب کے لہجے میں اساتذہ کرام کے لئے ممنونیت ٹپک رہی تھی۔
اس موقع کے لئے کلیدی خطاب کے لئے جس شخصیت کو چنا گیا تھا وہ بھی عین میرٹ پر۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی (تمغہ امتیاز) نے چترال میں کوالٹی ایجوکیشن میں آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان کے کردار کو سراہا اور high achieversکے لئے ہائی پروفائل محفل سجانے اور تنطیم کے چیف ایگزیکٹو افیسر کی اس میں شرکت کو قابل تقلید مثال قرار دیتے ہوئے کہاکہ قرآن وسنت کی روشنی میں میں بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہاکہ ااج کے دور کے طالب علم کی مسابقت پوری دنیا میں طالب علموں کے ساتھ ہے کیونکہ دنیا اب عملا ً گلوبل ویلج بن چکی ہے اور آغا خان ایویجوکیشن سروس چترال جیسے پسماندہ اور دورافتادہ علاقے کے اسٹوڈنٹس کو اس کے لئے تیار کرنے کا بیڑ ا اٹھا یا ہوا ہے۔
سکول کے میوزک کلب کے طلباء نے ستار، گٹار اور دوسرے آلات موسیقی کے ذریعے کلام اقبال پیش کرکے حاضرین کو گرمادیا اور جس انداز، اعتماد اور پرفیکشن کے ساتھ انہوں نے پرفارم کیا اور شاعر مشرق کے شہرہ اافاق کلام کو کھوار آہنگ میں پیش کیا، اس میں بھی میرٹ کی جھلک نظر آئی۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
فلسطین اور غزہ میں کامیاب مزاحمت اور فلسطینی ریاست کا برطانیہ سمیت بڑی قوتوں کی طرف سے تسلیم کرنے کی تناظر میں کلام اقبال نے روحوں کو گرمادیا تھا۔
کلام اقبال سے تپش حاصل کرنے کے بعد ڈی ای او اپر چترال محمود غزنوی نے ہائر سیکنڈری سکول چترال کے 30، کوارغ کے 20اور چپاڑی کے ایک طالبہ کومختلف مضامین میں high achieverکا انعام اور توصیفی اسناد سے نوازا جنہیں ان کے پرنسپلز نے وصول کئے۔ اچھے امتحانی نتائج کی بنیاد پر ہائر سیکنڈری سکول کوراغ کے فضل رقیب (کیمسٹری)، کلثوم سیدہ (انگریزی)، نبیلہ نرگس (بیالوجی)، فدا محمد (اسلامیات) اور چترال کے حسن علی سید (پاک سٹڈیز)، حضرت علی شاہ (فزکس)، احسان شہابی ّ(اردو) اور محمد اعجاز (بیالوجی) کو بھی اعزازات دے دئیے گئے۔
چترال گلگت بلتستان ریجن کے جنرل منیجر بریگیڈئر خوش محمد خان نے 1905ء میں گوادر بلوچستان میں شروع سفر سے لے کر اس سال بروغل میں بھی آغا خان سکول کے قیام کا ذکر کیا اور چترال کے طول وعرض میں مزید ہائر سیکنڈری سکولوں کی قیام کا ذکر کیا۔ انہوں نے AKES,Pکے سکولوں کی بورڈ امتحانات میں کامیابی کی ہائی شرح اور فیمل ایجوکیشن کے فروغ کا ذکر کیا۔ مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر لویر چترال محمد ہاشم عظیم نے اپنے خطاب میں اے کے ای ایس پی کی کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے کہاکہ کامیابی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے اورکامیابی کا شاہی راستہ محنت کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کی کاوشوں کا زکر کرتے ہوئے کہاکہ لویر چترال پاکستان کا پہلا اور واحد ضلع ہوگا جہاں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں تعمیر سیرت کے لئے نصاب سازی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ماہرین تعلیم کی نگرانی میں پرائمری جماعتوں کے بچوں کے لئے جو نصاب تیار کی جارہی ہے، اس میں لائف اسکلز اور ڈیزاسٹر ز کے بارے میں ہدیات بھی شال ہیں۔
مہمان اعزاز اور یونیورسٹی آف چترال کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حاضر اللہ نے کامیابی کے لئے چار عناصر موقع کی فراہمی، اعتماد وحوصلہ، بہتر کی امید اور مسلسل جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آغا خان ایجوکیشن سروس میں یہ سب موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال آنے سے پہلے ان کا چترال کے طالب علموں کے بارے میں مجموعی رائے یکسر مختلف تھی جبکہ یہاں آنے کے بعد ہی معلوم ہواکہ چترال کے طالب علم ملک کے کسی بھی ترقی یافتہ شہروں کے طالب علموں سے کسی بھی لحاظ سے کمگتر نہیں ہیں اور یہ کہ یہاں خواتین بھی تعلیم کے میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کررہی ہیں جوکہ خو ش آئندہے۔ انہوں نے ٹیچرز کو اسٹوڈنٹس کے لئے رول ماڈل قرار دیا۔
تقریب میں وہ شخصیت بھی جوجود تھے جوکہ صرف اس کے لئے کراچی سے چترال اور گلگت کا سفر کیا تھا جوکہ اس کے چیف ایگزیکٹو افیسر امتیاز مومن تھے۔ ان نے اپنے خطاب میں چترال گلگت بلتستان ریجن کی کارکردگی کو دوسرے تمام ریجنز سے بہتر قرار دیتے ہوئے اسے بریگیڈئر خوش محمد خان اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت اور کوششوں کا ثمر قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ ان سکولوں کے اسٹوڈ ٹس کی 80فیصد سے ذیادہ کی اے پازیٹو گریڈ کا حصول ان اداروں کی کارکردگی اور معیارکا مظہر ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیاکہ ان سکولوں کی معیار کو بین الاقوامی معیار کے برابر لانے کی کوشش جاری ہیں جبکہ اس وقت ان اداروں میں 62000سے ذیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
اس سے قبل معزز مہمانوں امتیاز مومن اورمحمدہاشم عظیم نے ہائیر سیکنڈری سکول کے high achievers میں انعامات اور توصیفی اسناد ققسیم کی جبکہ آغا خان ریجنل کونسل لویر چترال کے ظفرالدین نے بھی اعزاز ات تقسیم کی۔ تقریب کا احتتام شاعر مشرق کی لکھی ہوئی دعا سے ہوئی جس میں ہر بچہ اپنی زندگی کو شمع کی مانند بنانے، دنیاسے اندھیر ا کرنے، غریبوں کی حمایت کرنے اور درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کرنے کی توفیق وطاقت اللہ بارک وتعالی سے مانگی گئی ہے۔ تقریب میں معززین،،ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندے اور اعزاز حاصل کرنے والے طلباء کے والدین بھی موجود تھے جن میں صاحب نادر ایڈوکیٹ، لیاقت علی، عدنان زین، محمد افضل، پرنسپل صاحب الدین، طارق احمد اور دوسرے شامل تھے۔
ہائر سیکنڈری سکول کوراغ کے پرنسپل سلطانہ برہان الدین اور اے کے ای ایس کے فیلڈ اسٹاف بھی تقریب میں شرکت کی۔


