احمق! مسئلہ انصاف کا ہے ۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری
یہ کوئی تیس برس پرانی بات ہے جب نوجوان کلنٹن نے بڑے بُش کو امریکی صدارت کے لیے للکارا ۔ تو کسی کو امید ہی نہیں تھی یہ بُش جو پہلے آٹھ سال پریزیڈنٹ رہ چکا تھا اور صدام حسین کو کویت سے نکال کر عراق میں قید بھی کردیا تھا اور ایک مست ہاتھی کی طرح دنیا کو روندتا پھر رہا تھا کسی کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بل کلنٹن سے ہار جائیگا۔ کلنٹن نے عراق کا ذکر کیا نہ ہی کویت کا۔ اس کا نعرہ تھا احمق جاہل! مسئلہ معاشیات کا ہے یعنی (”Stupid it is economy”) یہ عوام کیلئے ایک اہم معاملہ تھا اس نے بالکل صحیح بات کی نشاندہی کی تھی یوں وہ الیکشن جیت لیا۔
اس وقت گلگت کی فضاؤں میں جو خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں ان بادلوں کے بطن میں چھپی اجل کی نمی برسنے سے پہلے یہ نعرہ بلند ہونا چاہیے احمق! مسئلہ انصاف کا ہے ۔ فی الوقت گلگت کا ہر باسی اپنے ادراک ، فہم اور فکری صلاحیت کے دائرے میں مذہبی تنازعہ کی جڑوں تک رسائی کی تگ ودو میں ہے ۔۔
اسی اثناء میں کوئی کہتا ہے اس میں شعور کا فقدان ہے تو کوئی کہتا ہے یہ سب کچھ ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کے اسباب ہیں کوئی کہتا ہے کہ ان عوامل کے پس منظر میں ایجنسیوں کے خفیہ ہاتھ ہیں کوئی کہتا ہے یہ 95 فیصد امن کے متوالوں کا جرم ہے جن کی عالمِ سُکوت میں مسلسل تماشا بینی اہالیان گلگت کو اس نہج پر پہچا دیا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ ہمارے خلاف عالمی طاقتوں کی عالمی سازش کا نتیجہ ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ جی بی کے مکینوں کو دست وگریباں کروا کر یہاں کے کہساروں کے سینوں میں موجود ہیرے اور جواہرات ہتھیانے کی چال ہے
جب کہ دوسری طرف معصوم انسانوں سے زندگی کی نعمتیں چھن جانے کا خوف ہر طرف منڈلا رہا ہے ، یہ وہی مردُم آزار خطہ ہے ۔ جس میں کئی انسانوں کی زندگی کا سورج دن کی روشنی میں غُروب ہوا ۔ ان پہاڑوں کے دامن میں ان انسانوں کے خون کے چھینٹوں کے داغ اب بھی موجود ہیں جن کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ مخالف فرقے کے نمازوں کی تعداد کتنی ہیں یہی زمین ان ستم دیدوں کو بھی نگل لیا جنہوں نے اپنے سے زندگی کی نعمت چھیننے والوں کو اپنا اسلامی اور علاقائی بھائی تصور کیا تھا۔۔
یہی سر زمین ان کیلئے بھی مقتل گاہ بنا۔۔ جو دنیا وما فیھا سے بے خبر زر و معاش کی تلاش میں اوارہ پرندوں کی طرح سرگرداں تھے۔۔ دنیا کی چھت پر واقع یہ فردوس بریں ان انسانوں کیلئے بھی اژدھے کا منہ بنا جن کے ناموں کے پہلے یا دوسرے حصے میں عمر ، ابوبکر ، حسین یا عباس تھا ۔۔ اس خطے کے کئی باسی کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی سنت مبارکہ داڑھی کو اپنے دست مبارک سے اس لیے شہید کرنے کا سوچا ۔۔ اگر یہ لمبی ہو تو اہل تشیع کے ایریاز میں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا اگر یہ چھوٹی ہو تو اہلسنت کے علاقے میں جان جانِ آفریں کے حوالے کرنا پڑتا۔۔ زندگی کی آمان کا بس یہی ایک راستہ باقی تھا کہ اپنا چہرہ دونوں فرقوں کے بدترین مشترکہ دشمن ٹرمپ اور نیتن یاہو کے چہروں کے سانچے میں ڈھال لیا جاتا ( یا ڈھال لیا جائے) ۔۔
لیکن ان سب کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ آج تک وہ ملزم نظر آۓ جو دن کی روشنی میں معصوم انسانوں سے زندگی کی نعمت چھین لیےتھے اور نہ ہی ان نقاب پوشوں پر کسی کی نظر پڑی جو تاک میں بیٹھ کر انسانوں کو بھون دیئے تھے۔۔
دہشت اور دہشت گردی کے اس قدر تیز تر حرکات و سکنات کے باوجود قانون اور انصاف مسلسل جمود کا شکار ہے قانون تو کبھی کبھار حرکت میں آبھی جاتا ہے لیکن ہر بار قانون کی حرکت کا محور بےدست اور لاچار افراد ہی ہوتے ہیں
۔ یہاں کا قانون ان کے گرد گھومنے اور ان کا گلہ گھونٹنے میں اپنی مثال آپ ہے ۔۔ رہی بات انصاف کی ۔۔
انصاف کی فراہمی کے لیے یہاں انتہائی پُرشکوہ اور عالیشان عمارتیں موجود ہیں ان عمارتوں کے اندر سینئر ججز بھی ہیں اور جونیئر ججز بھی ۔۔ ان میں ایڈیشنل رجسٹرار بھی ہیں اور ڈپٹی رجسٹرار بھی ۔۔ ان میں کازلسٹ آفیسرز بھی ہیں اور کاپی برانچ عملہ بھی۔۔۔ ان میں سینئر کلرک بھی ہیں اور جونیئر کلرک بھی ۔۔۔ ان میں ڈیٹا انٹری آپریٹرز بھی ہیں اور کمپیوٹر آپریٹرز بھی ۔۔۔ ان میں ریسرچ ایسوسی ایٹس بھی ہیں اور لاء کلرک بھی۔۔۔ ان میں ایڈمن آفیسرز بھی ہیں اور سیکشن آفیسرز بھی ۔ ۔۔ان میں ڈرائیورز بھی ہیں اور سویپرز بھی ۔۔ ان میں اعلیٰ کوالٹی کی میز کرسی بھی ہیں اور پائیدار شیلف بھی۔۔ شیلف میں قانون کی کتابیں بھی ہیں اور فائلیں بھی۔۔۔ کتابیں انگریزی میں بھی ہیں اور اردو میں بھی۔۔ ان عدالتوں کے باہر وکلاء کا دھوم بھی ہے۔۔ اور سائلوں کا ہجوم بھی۔۔ درِ انصاف کے دائیں بائیں ججوں کی گاڑیاں بھی ہیں۔۔ اور گارڈ کی ٹولیاں بھی۔۔ججوں کی گاڑیوں میں جھنڈیاں بھی ہیں اور محافظوں کے ہاتھوں میں بندوق کی نالیاں بھی۔۔
وکلاء نوجوان بھی ہیں اور بڑھے بھی ۔۔ان میں حق گّو بھی ہیں دروغ گُو بھی۔۔قصہ مختصر ۔۔۔!
میرے وطن ِ میری زمین اور میری دھرتی میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں ۔۔۔ لیکن صرف اور صرف ایک چیز کا وجود نہیں ۔
معز٘ز قارئین ۔۔۔۔۔ !
اب آپ ہی اپنی دانش مندی اور دانائی سے اس نادان انسان کو اس چیز کا نام بتائیں ۔۔۔ جس کی جستجو اور جس کے حصول کیلئے دور جدید کے انسان کو عمرِ نُوح ، صبرِ ایوب اور خزانہ قارون درکار ھے۔۔

