افغانستان میں انتخابات اور اقتدار کی منتقلی: ایک تلخ حقیقت – پیامبر: قادر خان یوسف زئی
افغانستان آج ایک نہ ختم ہونے والی تاریکی میں غرق ہے۔ جب افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کیا تو دنیا نے یہ سوچا تھا کہ شاید اس بار معاملات مختلف ہوں گے۔ شاید وہ حکومتی نظام میں کچھ سازوسامان رکھیں گے، کچھ ادارے باقی رہیں گے، اور معاشرتی ڈھانچے میں کم سے کم علامتی بہتری آئے گی۔ دوحہ معاہدے میں دستخط کئے جانے والے وعدوں کی پاسدار ی فرض تھی لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر ممکن نظر نہیں آرہا اور حقیقت اس سے بالکل مختلف نکلی۔ چار سال کی تنہائی، تشدد اور نظام ہائے ظلم نے افغانستان کو ایک ایسی جگہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں نہ تو انتخابات ممکن ہیں اور نہ ہی اقتدار کی منتقلی کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔
انتخابات افغانستان میں کیوں ممکن نہیں ہیں، یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اس کی تہہ میں جھانکنے والے شخص کو لگتا ہے۔ اس میں صرف سیاسی عدم رضامندی یا سرد موصلی نہیں ہے۔ یہ ایک نظام ہے جو بنیادی طور پر جمہوری نظریات اور عوامی حاکمیت کی تصورات کو مسترد کرتا ہے۔افغان طالبان نے جو حکومت قائم کی ہے، وہ ان کی تشریح کردہ مذہبی اقتدار پر مبنی ہے، نہ کہ عوام کی رضامندی سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔ جب کوئی حکومت اپنی شرعیت عوام کی منتخب کردہ ارادے سے حاصل کرے، تو انتخابات کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ فلسفہ سیکڑوں سال پرانا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا کوئی مقام نہیں۔2004 سے 2019 تک افغانستان میں جو انتخابات ہوئے، وہ سب کے سب ایک طویل کہانی ہیں جس میں امیدوں اور مایوسیوں کا سفر ہے۔
پہلی بار 2004 میں جب براہ راست صدارتی انتخابات ہوئے تو حامد کرزئی جیت گئے۔ یہ لمحہ قابل غور تھا کیونکہ افغانستان میں سوویت روس کے بعد سے پہلا منتخب صدر آیا۔ اس کے بعد 2005 میں پارلیمانی انتخابات میں خواتین کو 28 فیصد نشریں ملیں۔ 2009 کے انتخابات میں بھی ہزاروں افغان بندوقوں کی گولیوں اور تشدد کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے۔ یہ اب صرف تاریخ ہے۔ 2014 میں جب نتائج میں تنازعات پیدا ہوئے تو امریکی دخل سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں طاقت کی تقسیم ہوگئی۔ ہر انتخابات میں غلط فیصلہ، دھاندلی، خون، خوف اور ناکامی کی کہانیاں تھیں، لیکن پھر بھی افغان عوام ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے رہے۔ یہ ایک غیر معمولی چیز تھی۔ ایک ایسا ملک جہاں تشدد حکومت کا معمول تھا، وہاں بھی عوام جمہوریت کے خواب دیکھتے رہے۔
آج وہ صورتحال بالکل ختم ہو گئی ہے۔افغان طالبان نے بزور طاقت جو حکومت قائم کی ہے، اس میں کہیں بھی انتخابات کا نام و نشان نہیں ہے۔ 2021 کے بعد سے حالی وقت تک نہ تو کوئی انتخاب منعقد ہوا، نہ ہی ان کی کوئی تجویز پیش کی گئی۔افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخندزادہ نے جو پلان بنایا ہے، وہ ”لویا جرگہ” کا ہے۔ یہ افغان روایت میں ایک بڑی جمہور ہے جس میں بزرگ، علماء، قبائلی سربراہ اور دیہی امرا شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا لویا جرگہ کیا ہوگا؟ اس میں صرف وہی لوگ ہوں گے جنہیں افغان رجیم اجازت دیں۔ خواتین نہیں۔ سابق حکومت کے افسران نہیں۔ مخالفین نہیں۔ صرف افغان طالبان کے منتخب شدہ نمائندے۔ اور یہ درخواست تمام بزرگوں سے نہیں بلکہ صرف ان لوگوں سے ہے جوان کے کے نظریے سے ہم آہنگ ہوں۔
بین الاقوامی برادری کا موقف خود میں تقسیم ہے۔ امریکہ، یورپ اور کچھ دوسری طاقتیں چاہتی ہیں کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت بنائی جائے، خواتین کو حقوق ملے، اور جمہوری اصول کو قبول کیا جائے۔ لیکن روس نے تو جولائی 2025 میں امرآنہ طرز حکومت کو سرسری طور پر تسلیم کر دیا۔ یہ ایک اہم منعطف تھا۔ روس نے کہا کہ اب افغانستان میں استحکام ہے اور معاشی تعاون ممکن ہے۔ چین بھی اسی سمت میں ہے۔ یہ ممالک کہتے ہیں کہ بغیر کسی شرط کے معاشی مدد دی جائے، خواتین کے حقوق کے بارے میں سوالات پوچھنا ایک ”بیرونی دخل” ہے۔ یہ موقف بھی اپنے طریقے سے صحیح ہے۔خواتین افغانستان کی ہر جگہ سے غائب ہو رہی ہیں۔ 2021 کے بعد سے افغان طالبان نے 70 سے زیادہ فرمان جاری کیے ہیں جو خواتین کے حقوق کو محدود کرتے ہیں۔ 2.2 ملین لڑکیوں کو ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
میڈیا میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین بے روزگار ہو گئیں۔ ہسپتالوں میں خواتین کو برقع پہن کر آنا ہے۔ نومبر 2025 میں ہرات میں ایک نیا فرمان آیا کہ غیر ملکی خاتون عملہ شفاخانوں میں کام نہیں کر سکتیں۔ اب صرف تین افغان خواتین (ایک ڈاکٹر، ایک نرس، اور ایک دائی) کام کر سکتی ہیں۔ یہ صرف ہرات میں نہیں ہے، یہ پورے ملک میں ہے۔ یہ منطقہ وار نہیں ہے۔ یہ ایک منصوبہ ہے۔ اور یہ منصوبہ کامیابی سے نافذ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس کو روکنے کے لیے کچھ کر رہا ہے؟افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ”خواتین کے حقوق کو ہم شریعت کے مطابق محفوظ رکھ رہے ہیں۔” یہ ایک پل تھا جہاں دنیا اور افغان سلطنت کا سفر الگ ہو گیا۔ ایک طرف عدالت ہے جو انصاف کی کہانی کہہ رہی ہے، دوسری طرف حکومت ہے جو اپنی شریعت میں الگ راستہ دیکھ رہی ہے۔
اقتدار کی منتقلی کے بارے میں سوچنا بھی خیالی پلاؤ ہے۔ افغانستان میں اقتدار منتقل کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک ایسی حکومت ہونی چاہیے جو خود کو اتنا غیر قانونی سمجھے کہ اقتدار منتقل کرنے کے بارے میں سوچے۔افغان طالبان اپنے آپ کو غیر قانونی نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کو غلط نظام سے آزاد کیا ہے۔ ہمہ جہت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حکومتی نظام بدلنا ہے۔ خیالات بدلناہیں۔ انسان بدلنے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک چھوٹے سے وقت میں نہیں ہو سکتا۔ اور جب تک یہ تبدیلی نہیں ہوتی، اقتدار کی منتقلی صرف خواب ہی رہے گی۔
انتخابات افغانستان میں اب کب تک ممکن نہیں ہوں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔ شاید دہائیوں۔ شاید صدی۔ شاید کبھی نہیں۔ یہ منحصر ہے بہت سی چیزوں پر۔افغان طالبان کے اندر تبدیلی پر۔ بین الاقوامی دباؤ پر۔ افغان عوام کی مزاحمت پر۔ ہر چیز غیر یقینی ہے۔ لیکن ایک چیز یقینی ہے: اگر موجودہ رفتار جاری رہی، تو افغانستان میں جمہوریت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اگلی نسل کو شاید یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جمہوری نظام کیا ہوتا ہے۔ انہیں افغان طالبان کے فرمانات میں صرف ایک راستہ نظر آئے گا۔ اور یہ ہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

