“جہاں خیال” – 27ویں آئینی ترمیم: وفاقی کنٹرول بمقابلہ صوبائی خود مختاری – تحریر: عتیق الرحمن
وفاقی حکومت نے حال ہی میں 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی تعلیمی اداروں کو وفاق کے تحت لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ اقدام پاکستانی تعلیمی نظام کے آئینی ڈھانچے اور صوبائی خود مختاری کے تناظر میں نہایت اہم اور حساس ہے۔ آئین پاکستان 1973 کے مطابق تعلیم بنیادی طور پر صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، اور 18 ویں آئینی ترمیم (2010) کے بعد صوبوں کو تعلیم کے شعبے میں مکمل خود مختاری دی گئی تھی۔
18 ویں ترمیم نے تعلیم، نصاب سازی اور تدریسی معیار میں صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا، جبکہ وفاق کا کردار بنیادی طور پر نصاب کی ہم آہنگی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی تک محدود رہا۔ اب وفاقی حکومت کی یہ تجویز نصاب اور تعلیمی پالیسی کو یکساں بنانے کے مقصد کے تحت صوبائی سطح پر مقامی زبان، ثقافت اور ضروریات پر اثر ڈال سکتی ہے۔
اہل علم اور تعلیمی ماہرین کا عمومی مؤقف یہ ہے کہ صوبائی خود مختاری کو کمزور کرنا نقصان دہ ہوگا۔ وفاقی کنٹرول کے باوجود نصاب میں مقامی تنوع کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی رپورٹ بھی یہی تجویز کرتی ہے کہ تعلیم میں اصلاحات کو وفاق اور صوبوں کے اشتراک سے کرنا زیادہ مؤثر اور پائیدار ہوگا۔
وفاقی کنٹرول کے ممکنہ فوائد میں نصاب کی ہم آہنگی، معیار میں بہتری اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط نمائندگی شامل ہیں۔ تاہم، نقصانات میں صوبائی اختیارات کا خاتمہ، مقامی زبانوں اور ثقافت کی تعلیم پر اثر اور سیاسی دباؤ شامل ہیں۔ ماہرین تعلیم کی سفارش ہے کہ نصاب کی معیار سازی وفاقی سطح پر کی جائے، مگر صوبوں کو مقامی نصاب اور تعلیمی پروگرام پر اختیار دیا جائے، اور وفاقی و صوبائی ماہرین پر مشتمل مشاورتی کمیشن قائم کیا جائے۔ شفاف اور عوامی مشاورت کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ اصلاحات کا عمل سب کے لیے قابل قبول اور مؤثر ہو۔
تعلیم کی بہتری صرف یکطرفہ کنٹرول سے ممکن نہیں۔ وفاق اور صوبوں کا متوازن اشتراک، شفاف مشاورت اور مقامی ضروریات کا احترام ہی پاکستانی تعلیمی نظام کی ترقی کی ضمانت ہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں تعلیم کے معیار، ثقافت اور صوبائی خود مختاری کا توازن برقرار رہے۔

