Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مشرقی اُفق۔ رائے احمد خان کھرل سپریم کمانڈر جنگ آزادی 1857ء کا ہیرو۔ میر افسر امان

Posted on
شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمان الرحیم
مشرقی اُفق۔ رائے احمد خان کھرل سپریم کمانڈر جنگ آزادی 1857ء کا ہیرو۔ میر افسر امان

جب 1857ء کی جنگ آزادی کی بات کریں تو پنجاب ضلع گوگیرہ، جواب ضلع ساہیوال ہے, کے قریب دریائے روای کے جنوبی کنارے گاؤں جھامرہ میں رائے احمد خان کھرل جنگ آزادی 1857ء کے ہیرو اور سپریم کمانڈر کا مقبرہ اور اُس کی جد وجہد یاد آجاتی ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ انگزیزوں نے 1849ء میں سکھوں سے پنجاب حاصل کیا تھا۔اپنے دور حکومت میں پنجاب کو 27ضلعوں میں تقسیم کیا تھا۔گوگیرہ1852ء میں ملتان ڈویژن کا ضلع تھا۔ 1855ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تین لاکھ آٹھ ہزارتھی۔

اس علاقے کے کمپنی افسروں کو میرٹھ اور دہلی میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی خبریں 13 مئی 1857ء کوملیں تھیں۔گوگیرہ کے اسسٹنٹ کمشنر این ڈبلیو ایلفٹن کو بتا یا گیا کہ میرٹھ اور دہلی میں مجائدین آزادی نے انگریز سپائیوں کو قتل کر دیا ہے۔ لاہورکی میاں میر چھاونی میں مقامی سپاہیوں سے اسلحہ لے لیا گیا ہے۔ اس اطلاع پر خزانے پر اسسٹنٹ کمشنر نے گوگیرہ میں خزانے پر تعینات مقامی سپاہیوں سے اسلحہ واپس لے اور انہیں لاہور چھاونی بھیج دیا۔ان کی جگہ مجائدین مخالف سکھ بابا گھیم سنگھ کے ملازمین کو خزانے پر تعینات کر دیا۔ انگریزوں نے میرٹھ اور دہلی کی جنگ آزادی کی خبریں روکنے کے لیے مقامی طور پر خطوط پر سنسر لگا دی۔یہ خبر کھرل قبیلے کے سرادار رائے احمد خان کھرل تک پہنچی۔ جہاں دیدہ احمد خان کھرل کا رابطہ جنگ آزادی کے مجائدین اور مغل بادشاہ سے تھا۔ پورے برصغیر کی طرح اس علاقے میں بھی جنگ آزادی چل رہی تھی اور انگریزوں نے مقامی مجائدین اور ان کی خواتین کو جیل میں ڈالا ہواتھا۔ یہ قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک شامو دھیرے کھرل بھی تھا۔یہ قیدی احمد کھرل کے گاؤ ں جھامرہ ان کے پاس پہنچا۔ انگریزوں کی کمزوریاں ان کے سامنے بیان کیں۔ اس سے مقامی لوگوں میں ہمت پیدا ہوئی۔ جون1857ء کو اسسٹنٹ لیو بولڈ برکلے نے علاقے کے معتبرسرداروں کو بلایا جن میں احمد کھرل اور سارنگ کھرل بھی آئے تھے۔ ان سرداروں کو بڑے عہدوں کا لالچ دے کر کہا کہ جنگ کے لیے گھوڑے اور نوجوان دیں۔ اس پر احمد کھرل نے برکلے،جسے مقامی لوگ برکلی کہتے ہیں، کو تاریخی جواب دیا کہ”ہم گھوڑے، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے“۔

 

اسی دوران چیچہ وطنی اور کمالیہ کے گیارہ مقامی سپاہیوں کو ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں آزادی کے مجائدین کی طرح بغاوت کے شعبے میں توپ کے سامنے کھڑا کر کے اُڑا دیا۔ آٹھ جولائی کو گوگیرہ کی تحصیل پاک پتن کے دریائے ستلج کے کنارے گاؤں لکھوکے میں جوئیہ قبیلے کے لوگوں نے لگان ادا کرنے سے انکار کر دیااور مال افسروں کو بھی گاؤں سے نکال دیا۔اس پر گوگیرہ جو انگریزوں کا ہیڈ کواٹر تھا، کے نوجوانوں، عورتوں، بچوں کو جیل میں بند کر دیا گیا۔اور مال مویشی لوٹ لیے گئے۔ احمد کھرل نے جیل کے دروغہ کی مدد سے جیل کا خفیہ دورہ کیا۔پھر وفادار ساتھیوں سے مل کر اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کی انگریزوں کو غداروں نے اطلاع کر دی۔پھر بھی جیل پر کامیاب حملے میں، انگریزوں کے ریکارڈ کے مطابق اٹھارا قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران سترہ قیدی شہید اورتیس زخمی ہوئے۔جیل توڑنے کے جرم میں احمد کھرل کو گرفتار کر لیا گیا۔ثبوت فراہم نہ ہونے پر رہائی ملی۔ مگر گوگیرہ سے بغیر اجازت باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ایک مجرم حاور وٹو کو پھانسی اور نتھو بیرکا کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران جنگ آزادی کے لیے اہم علاقوں جن میں لکھو کے، پنڈی شیخ موسیٰ، محمد پور، ہڑپہ، جیچہ وطنی، جلھن فتیانہ اور جھامرہ میں خفیہ تیاریاں زرو پکڑ گئیں۔

 

مجائدین کے سپریم کمانڈراحمد کھرل نے ہڑپہ کے نذدیک ایک قصبے مرادکے کاٹھیا میں نقشے کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی منصوبہ بندی کی اور سرداروں کو تفصیل بتائی۔ گوگیرہ کے غدار، سکھ سردار بیدی کے ایک ساتھی ڈونگی سنگھ بھی وہاں موجود تھا۔ ان سکھوں نے غداری کرتے ہوئے جنگ کے خفیہ راز فاش کر دیے۔ غداری پر ڈونگی سنگھ کو قتل کر دیا گیا۔ غدار سکھوں کو احمد کھرل کی دوستی بھول گئی، جو اُس نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں سکھوں کی مدد کی تھی۔ سپریم کمانڈر احمد کھرل نے بہاول پور کے بادشاہ ملاقات کے دوران وہاں سے سات بندوقیں اور گولہ بارود لائے تھے۔ احمد کھرل کے ساتھ ترہانہ قبیلے کے سردار صلابت ترہانہ بھی شریک تھے۔گوگیرہ میں لڑائی 17 ستمبر کو شروع ہوئی۔ انگریزوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ جنگ آزادی کی خبر احمد کھرل کے ایک دشمن سرفراز کھرل نے انگریزوں کو دی تھی۔احمد کھرل نے جھنگ اور لاہور کے درمیان ناکہ بندی کر کے رابطہ ختم کر دیا۔ دریائے راوی کے کنارے تحصیل سرائے سدھو کی سمت مجائدین نے پیش قدمی شروع کی۔ انگریز کی طرف سے پینتیس سپاہی دفاع کے لیے آگے بڑھے۔ احمد کھرل کو دریائے راوی پار کرنے سے پہلے ہی اس کے گاؤں دھامرہ میں گرفتار کرنے کے لیے برکلے نے بیس سواروں کادستہ بھیجا۔مگر احمد کھرل کے وفادر کشی بانوں نے انہیں سوار کرنے سے انکار کر دیا۔ احمد کھرل نے اعلان کر رکھا

 

تھا کہ وہ برطانوی حکومت کو نہیں مانتے۔وہ مغل بادشاہ کے وفادار ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مجائدین بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس وسائل بہت ہی کم تھے۔صرف ایمانی قوت سے انگریزوں حملہ آوروں کے خلاف جنگ آزادی لڑے رہے تھے۔ برکلے نے مزید ساٹھ سپائیوں کو لڑائی کے لیے بھیجا اور خود بھی میدان میں کود پڑا۔ برطانوی افواج نے بلا آخر راوی پار کر لی اور احمد کھرل کے گاؤں دھامرہ کے طرف روانہ ہوئی۔ جنگی چال کے طور پر مجائدین منتشر ہو کر جنگل کی طرف چلے گئے۔ برطانوی فوج نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے گاؤں دھامرہ کو آگ لگا دی۔بیس مجائدین کو قید کر کے اور سات سو مویشیوں کو اپنے ساتھ اپنے جنگی ہیڈ کواٹرگوگیرہ لے گئے۔تلاشی کے دوران سفاک انگریزوں نے پنڈی شیخ موسیٰ کے علاقے میں آگ لگا دی۔اس ظلم کے خلاف کھرل قبیلے کے لوگ جمع ہوئے اور انگریز کے خلاف کاروائی میں شدد پیدا کی۔ اکیس ستمبر کو آخری مقابلہ مجائدین دھامرہ گاؤں سے پانچ میل دور کشکوری کے قریب جنگل میں چلے گئے۔ اس دوران وٹو قبیلے کے لوگ بھی مجائدین سے آملے۔ جنگل گھنا تھا اس لیے انگریز کو لڑائی میں دشواری پیش آئی۔ اس جنگ کے دوران انگریز کے پندرہ سے سولہ سواروں کے قتل پر سراسیمگی پیدا ہوئی۔لڑائی میں سارنگ کھرل اور دیگر لوگ شہید ہوئے۔ مسلمان دشمن ایک سکھ نے احمد کھرل کو نماز پڑھتے ہوئے شناخت کیا اور گلاب سنگھ نے گولی چلا کر سپریم کمانڈر کو شہید کر دیا۔ برکلے مسلم دشمنی میں احمد کھرل کا سر تن سے جدا کر کے ساتھ لے گیا۔

 

اس کے سر کو گوگیرہ جیل میں رکھا گیا۔ روایت کے مطابق جیل کے پہرا داروں میں ایک پہرا دار احمد کھرل کے گاؤں دھامرہ کا تھا۔ اس کو خواب میں احمد کھرل آیا اور کہا انگریز میرا سر ولایت لے جانے چاہتے ہیں جبکہ میرا سر اس مٹی کی امانت ہے۔موقعہ ملتے ہی اس نے اپنی ڈیوٹی کے دوران احمد کھرل کا سر ایک گھڑے میں رکھ کر گاؤں دھامرہ لے گیا۔ اس نے احمد کھرل کی قبر میں اس سر کو دفنا دیا۔ برکلے نے جنگل کی طرف پیش قدمی کی مگر مجائدین آزادی کے ایک دستہ نے اس کو قتل کر دیا۔ برکلے کے پچاس سے زاہد سپاہی اس لڑائی میں مارے گئے۔ برکلے کے قاتل مجائد مراد نے اِس کا سر کاٹ کر اپنے گاؤں جلھن لے گیا اور کہاکہ ہماری قسمت میں جو لکھا ہے وہ توہوگا، مگر برکلے اب گوگیرہ میں کبھی بھی عدالت نہیں لگا سکے گا۔ رائٹر تراب الحسن سرگانہ کی کتاب ”پنجاب اینڈ وار آف انڈیپنڈس1857.1858“ کے مطابق یہ لڑائی پنجاب کے علاقے کمالیہ،پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جمیر، سادھوکے، قبولہ اور پاک پتن کے علاقوں میں لڑی گئی۔سپریم کمانڈر احمد کھرل کے مجائدین سقوط دہلی سے بھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔

 

 

لاہور سے ملتان تک تقریباً سوا لاکھ سے زاہد مجائدین اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔تاریخ سے معلومات ملتی ہیں کہ ایک مسلمان میجر برکت علی کو لکھے گئے خطوط سے معلوم ہوتا کہ بہاول فتیانہ، صلابت ترہانی، سارنگ کھرل اور ویہنی وال نے اس کو انگریزوں کو چھوڑ کر مجائدین سے ملنے کا کہا تھا۔ اسی طرح بہاول پور کے بادشاہ کو بھی مجائدین کا سربراہ بنے کے خطوط لکھے گئے تھے۔ یہ بھی تاریخ میں لکھا کہ اس علاقے کے گدی نشین، جاگیردار، سردار ں نے اپنی مسلمان قوم سے غداری کرتے ہوئے، مجائدین آزادی کو پکڑ پکڑ کر شہید کیا اور انگریزوں کے حوالے کیا۔ اس کے عوض جاگیریں اور سالانہ پنشن اور خان بہادر کے اعزازات حاصل کیے۔انگریزوں نے مجائدین آزادی کو پھانسیوں کی سزائیں، توپوں کے سامنے گھڑا کر کے اڑا دینے، اور کالا پانی، دور درازجزائر انڈومان میں قید کی سزائیں سنائیں۔عوام جہاں غداروں سے نفرت کرتے ہیں۔ وہاں مجائدین پر ان مظالم کہانیاں آج بھی شاعری کی ایک صنف ڈھولے اور دیگر میں محفوظ ہیں۔ لوگ اکثر یہ واقعات گنگناتے رہتے ہیں۔ سپریم کمانڈر رائے احمد خان کھرل کے پوتے احمد علی خان کھرل نے ان کے مقبرے کی تزین آرائش کی ہے۔ اللہ کرے ان کی قبر تک سڑک بھی پکی کر وا دیں۔ کیونکہ رائٹر تراب الحسن سرگانہ کی کتاب ”پنجاب اینڈ وار آف انڈیپنڈس1857.ء1858 ء“ کو پڑھ کردنیا سے جنگ آزادی1857ء کے سپریم کمانڈر، رائے احمد خان کھرل کی قبر کی زیارت کے لیے اہل دل آتے رہتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
87472