Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 اسلام کا فلسفہ عبادت  –  تحریر:انوار الحق 

شیئر کریں:

 اسلام کا فلسفہ عبادت  –  تحریر:انوار الحق

 اسلام کا فلسفہ عبادت  –  تحریر:انوار الحق

رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے تیسرے عشرے میں داخل ہو چکا ہے۔ کافی عرصے سے میں رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن دامن وقت میں وقت نہ ہونے کی وجہ سے آج اس کاوش کو اپنے انجام تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔کچھ لکھنے سے پہلے میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایک نالائق طالب علم ہوں۔ممکن ہے کہ میرے لکھی ہوئی باتوں میں کمی بیشی موجود ہوں گے اس لیے آپ حضرات سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ میری اصلاح کریں گے۔

اللہ تبارک و تعالی اپنے کلام مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ “میں نے تم پر رمضان المبارک کے روزے فرض کیے ہیں جیسے کہ میں نے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے تھے۔”بحیثیت مسلمان ہم رمضان المبارک کے روزے بڑے شوق اور باقاعدگی کے ساتھ رکھتے ہیں۔اس ماہ مبارک میں بہت سی چیزوں کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ہمارے دسترخوان،ہمارے بازار اور گلی محلے مختلف پکوانوں سے سجائے جاتے ہیں۔اس ماہ مبارک میں دنیا بھر میں تمام مسلمان نماز،تلاوت قرآن،صدقہ، زکوۃ، تمام عبادتوں کا خصوصا اہتمام کرتے ہیں۔

 

لیکن آئیے اج ہم سب مل کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ کیا اللہ تبارک و تعالی نے رمضان المبارک کے روزوں کو صرف ایک عملی عبادت کے طور پر ہم پر فرض کیا ہے؟یا پھر جیسا کہ ہمارا ایمان ہے اللہ تعالی کے ہر حکم میں اس کی حکمت چھپی ہوتی ہے،بالکل اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں میں چھپی ہوئی حکمت کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالی نے جس خوبصورت دین سے ہمیں نوازا ہے وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام میں جتنی بھی عبادتیں عملی طور پر ادا کی جاتی ہیں ان تمام عبادتوں میں کوئی نہ کوئی چھپا ہوا فلسفہ موجود ہوتا ہے۔جیسے کہ نماز کا فلسفہ “اتحاد” ہے۔بالکل اسی طرح رمضان المبارک میں رکھے جانے والے روزوں بھی کا فلسفہ موجود ہے۔جب طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہم بھوک اور پیاس کی حالت میں ہوتے ہیں تب ہمیں بھوک اور پیاس کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک انسان جس کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی اس کی کیا احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔جب ہم گرمیوں کے موسم میں روزہ رکھتے ہیں تب ہمیں پیاس کی شدت یہ محسوس کراتی ہے کہ وہ لوگ جن کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،ان کو کن تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے اس پڑوسی کی حالت کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ جس کے گھر میں مہینوں مہینوں تک اچھا پکوان نہیں پکتا۔رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنے سے چند منٹ پہلے اگر انسان ان سب باتوں پر غور و فکر کرنا شروع کر دے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ روزہ صرف ایک عملی عبادت سے بڑھ کر چیز ہے۔

 

سب سے آخر میں اس بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں روزے کی اس فلسفے کو سمجھنے کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے،اللہ تعالی نے آپ کے لیے رزق کے سارے دروازے کھول دیے ہیں۔اس کے بعد اپنے آس پاس بسنے والے ان غریب اور لاچار لوگوں کے بارے میں سوچیں اور اپنے بساط کے مطابق ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔اگر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کوئی خاص پکوان پکایئں تو اس میں سے تھوڑا حصہ نکال کر اپنے مستحق پڑوسیوں سے کو بھی بھیجیں،اس پکوان کو اپنے بچوں کے ہاتھوں پڑوسی کے گھر میں بھیج دیں تاکہ آپ کے بچوں کے اندر بھی یہ احساس اجاگر ہو سکے۔اللہ تعالی نے اگر آپ کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اس میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ثواب داریں حاصل کریں۔

 

اللہ تعالی ہمیں روزے کی فلسفے کو سمجھنے اور تمام تر عبادتوں کو اللہ تبارک و تعالی کے احکامات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

آمین یا رب العالمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
87017