Chitral Times

Apr 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مالی یا اخلاقی بحران – تحریر : جان نظاری

شیئر کریں:

مالی یا اخلاقی بحران – تحریر : جان نظاری

حکمران طبقہ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اس حوالے سے زمینی حقائق دیکھیں جائیں تو صورتحال اس کے مکمل برعکس ہیں۔ پاکستان پچھلے 75 سالوں سے مالی نہیں اخلاقی بحران کا شکار رہا ہے۔ اسے ٹھیک کرنے کے لئے پیسے جمع کرنے کی تَگ و دو کرنے سے زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم خود کو ٹھیک کریں، خود کو شرعی اور عمومی اخلاقی دائرے میں لانے کی کوشش کریں۔ مسائل خواہ ملک کے ہوں، یا علاقے کے، کسی گروہ کے ہوں یا خاندان کے، انفرادی ہوں یا اجتماعی، اسے ٹھیک کرنے کے لئے اس کو درپیش مسائل پے کام نہیں کیا جاتا، اسطرح وہ مسئلہ بروقت تو ختم ہوگا، پر دوبارہ جنم لینے کے قوی امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کے علامات پے کام کیا جائے اور علامات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کیا جائے۔ اس طرح سے ہم اس مسئلے پے بخوبی قابو پانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ہمارے تھنک ٹینک اتنے سالوں سے مسائل پے کام کرتے نہ کہ مسائل کے حقیقی جڑوں کو کمزور کرنے کی مخلصانہ کوشش کرتے ہیں۔ ملک میں چوری کے رجحانات میں اضافہ ہو خواہ ناجائز طریقے سے مال بنانے کا بڑھتی رواج، فرائض کی ادائیگی میں غفلت ہو یا رشوت لینے اور دینے کا یہ افسوسناک فعل، ان تمام محرکات کے پس پردہ ایک ہی وجہ کارفرما ہے، وہ یہ کہ لوگ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے نا آشنا ہیں۔ چاہیے حکومت وقت ہو یا حکومت سے وابسطہ ذمہ دار افراد، وہ اگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے لوگوں کو اپنے جائز حقوق اور اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو بخوبی انداز سے جاننے اور نبھانے کا مکمل درس دیتے تو، پاکستان اب تک اپنی ترقی کے راہ میں حائل رکاوٹوں پے کسی حد تک قابو پاچکی ہوتی۔ پشاور راولپنڈی سے محض 170 کلومیٹر کی دوری پے واقع ہے، وہاں روڈ پے ایک بیکاری نہیں نظر آتا، جبکہ راولپنڈی میں بھیک مانگنا ایک پیشہ یا انڈسٹری بن چکا ہے اور عنقریب پورے پنجاب کا یہی حال ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کا نہیں، یہ مالی مسئلہ نہیں، یہ طبقاتی مسئلہ ہے، یہ خودداری اور حب الوطنی کی بحران کا مسئلہ ہے۔

 

یہ ملک نہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، نہ عوامی جمہوریہ پاکستان اور اور نہ ہی کوئی آئینی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ محض ایک غیر جمہوری طبقے کا پاکستان ہے۔ اس ملک میں رائج نظام آج دن تک اس طبقے کو بھی نہیں سمجھ آ رہا، جو عقبی دروازے سے انٹری مار کے اس نظام پے قابض ہوئے بیٹھے ہیں۔ کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے حکمرانی کے مختلف زاویے یا طریقہ کار ہوتے ہیں، جس میں جمہوریت، آمریت اور بادشاہت سرفہرست ہیں، لیکن اس عجوبہ نما ریاست میں یہ تینوں نظام حکمرانی رائج نہیں، لیکن یہ ریاست پھر بھی نیم زندہ حالت میں دنیا کی نقشے میں موجود ہے۔ یہ درحقیقت کوئی ریاست نہیں، یہ مذہب اور فرقوں کا کارخانہ ہے۔ یہاں مذہب بکتا ہے، یہاں فرقے بکتے ہیں، یہاں فتوے بکتے ہیں، یہاں غربت بکتا ہے، یہاں ووٹ بکتا ہیں، یہاں اختیارات بکتے ہیں، یہاں ضمیر بکتا ہے، اور تو اور یہاں ناقص کارکردگی کو عوام کے سامنے والا قلم بھی دو روپے کے عوض بکتا ہے۔

پاکستان عمر کے لحاظ سے اپنے ہم عصر ممالک سے قدرے بڑے ہے، پر ترقی کا رفتار کو دیکھا جائے تو موصوف کچوے کو بھی پیچھے چھوڑا ہے۔ حیرانی کا یہ عالم ہے، کہ بڑے بڑے دانشور بھی اس کی رفتار اور اس کے پس پردہ وجوہات سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ اس اعتبار سے معلومات بھی زمینی حقائق کے مکمل برعکس سننے یا پڑھنے کو ملتے ہیں۔ معلومات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم ہر لحاظ سے نمبر ون ہیں، پر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہر ماہ بجلی کا بل آنے پے پورے ملک میں عنقریب سو جانیں خود کشی کے نظر ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کی وہ واحد ملک ہے جہاں حقائق پے بات کرنے کو غیر شرعی، غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ زمینی حقائق انتہائی دلخراش اور مایوس کن ہیں۔ جو معلومات عوام یا دنیا کے سامنے بتایا جائے، وہ چھپایا جاتا ہے اور جن باتوں کی کہیں وجود ہے ہی نہیں، وہ ہمہ وقت میڈیا کی زینت بنی رہتی ہے۔ مریم صفدر کے ہاتھ سے قلم گر جاتا ہے تو وہ جیو یا سماء نیوز پے ہیڈ لائن بن جاتا ہے، جبکہ بلوچستان میں ہر آئیں روز بھوک سے مرنے والے بچوں کا کوئی پوچھنے یا داد رسائی کرنے والا نہیں۔ لاکھوں جانوں کو اپنی آزادی کی خاطر لقمہ اجل بنانے والی یہ ملک اس قدر اپنی ہی باسیوں کے لئے کانٹوں کا کردار ادا کریں گی، یہ کس نے سوچا تھا۔ آج اگر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح زندہ ہوتے تو شاید سر پکڑ کر رو رہے ہوتے۔ ایسے ملک کا خواب نہ تو اقبال نے دیکھا تھا اور نہ ہی قائد اعظم نے ایسا ملک حاصل کیا تھا۔ 1966 تک ایشیاء کا ٹائیگر کہلوانے والی یہ ملک بدحالی میں آج افغانستان اور عراق کو بھی پیچھے چھوڑ دی ہے۔ اور ذمہ داران پھر بھی اس خرابی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

ہمارا ہمسایہ ملک چاند پے پہنچ گیا اور ہم اپنے ملک سے ہی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کو ختم کرکے اسے چاند بنا دیا ہے۔ آج بھی اگر عوام نہیں جھاگ جاتی ہے تو، اس ملک کی مستقبل کا پیشگوئی کوئی مشکل کام نہیں۔ ہم کیوں اتنی جلدی بنگال قحط کو بھول گئے، جہاں خوراک کی قلت نے کم و بیش تیس لاکھ جانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دی تھی۔ اس ہم سب خدانخواستہ ایک دفعہ پھر مغرب والوں کے سامنے بیٹھے روئیں گے اور سر پے ہاتھ رکھنے یا آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس وقت ذہن میں صرف ایک ہی خیال آئیں گا اور وہ یہ کہ کاش ہم وقت پے برادری، قومیت، مذہب، فرقے اور قبیلے سے وابستگی کو پس پردہ ڈال کر ایک قوم بن کے اپنی حقوق کے لئے اکٹھے ہوجاتے۔ اس ملک کے حالات ایک دن میں ایسے بگڑے نہیں ہیں اور نہ ہی ایک دن میں ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اسے ٹھیک کرنے کے لئے اب ہمیں ایک قوم بن کے ہمارا پاکستان کے بجائے میرا پاکستان سمجھ کے قدامت پسندی کے ساتھ اس پے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یادوں کا ایک جھونکا آیا ہم سے ملنے برسوں بعد
پہلے اتنا روئے نہ تھے جتنا روئے برسوں بعد

لمحہ لمحہ گھر اجڑا ہے، مشکل سے احساس ہوا
پتھر آئے برسوں پہلے، شیشے ٹوٹے برسوں بعد


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
79722