Chitral Times

May 21, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پیسہ پھینک تماشا دیکھ- میری بات:روہیل اکبر

شیئر کریں:

پیسہ پھینک تماشا دیکھ – میری بات:روہیل اکبر

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور آجکل سکینڈلز کی زد میں ہے اور ہر سکینڈل کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے کچھ لوگ سادگی میں استعمال ہوجاتے ہیں اور کچھ کو استعمال کیا جاتا ہے تھانہ کچہری کی سیاست اور صحافت کرنے والوں سمیت وکالت کرنے والوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا اصول ہمارے ہاں کتنا زیادہ رائج ہے کچہری میں ہر وقت جھوٹا اور سچا گواہ دستیاب ہوتا ہے کسی نے ضمانت دینی ہے اور ضمانتی نہیں مل رہا تو کچہری میں ہی رجسٹری اور کاغذات لیے گواہ موجود ہوتے ہیں جن سے معاملات طے ہونے کے بعد وہ شخص ضمانتی بن جاتا ہے اسی طرح ہماری پولیس کے پاس بھی ایک سے بڑھ کر ایک فنکار ہوتا ہے جسکو آپ مسجد میں بھی لے جائیں تو وہ وہاں پر بھی جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہوجاتا ہے یہ وہ حقیقتیں ہیں جسکا ہر اس شخص کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے جو تھانہ کچہری کے ماحول کو سمجھتا ہے اس سے ہٹ کر دوسری بات یہ ہے کہ منافقت ایک ایسا لفظ ہے جس کو سمجھنے کے لیے تھانہ کچہری کی سیاست کو سمجھنے کی بھی قطعا کوئی ضرورت نہیں

 

یہ وہ لفظ ہے جو ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ہمارے دیہاتی بھائی شریکے کو بخوبی سمجھتے اور جانتے بھی ہیں شہروں کے رہنے والے شریکا برادری کی سیاست سے زرا دور رہتے ہیں کیونکہ انہیں کام کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اگر نہ کریں تو روٹی پوری نہیں ہوتی لیکن اسکے باوجود ہم ایک دوسرے سے منافقت ضرور رکھتے ہیں اور بغض بھی اسی کا حصہ ہے اسی لیے تو ہم ترقی کرتے کرتے یک دم نیچے دھڑام سے آگرتے ہیں جو ماحول ہم نے پاکستان کا بنا دیا ہے اس سے نکلنا اب ناممکن ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک کامیابی کا یہی واحد اور اکلوتا راستہ رہ گیا ہے اس گھٹن زدہ ماحول میں جو منافقت نہیں کرتا وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے لیکن پھر بھی امید کی کرن والے کچھ لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں جنہیں دیکھے اور ملے بغیر ہی دل کو تسلی رہتی ہے کہ شائد انہی لوگوں کی وجہ ہمارا معاشرہ قائم ہے اور یہی امید زندگی کے چراغ کو ٹمٹمانے نہیں دیتی جو مایوس ہوجاتے ہیں وہ بہتے پانی میں چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں میں انہیں بھی بہادر سمجھتا ہوں جو رسہ لٹکا کر بچوں سمیت موت کے ان پھندوں میں جھول جاتے ہیں مرنا کتنی بڑی بہادری کا کام ہے یہ وہی جانتے ہیں

 

ہم لوگ تو ایک کانٹے کی چھبن بھی برداشت نہیں کرتے اور خود کشی کرنے والے وہ بھی بچوں کے ساتھ بزدل،منافق،چور،ڈاکو اور لٹیرے نہیں ہوتے یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو دکھ دیے بغیر اپنی زندگی کا خاتمہ کرجاتے ہیں وہ بھی اس لیے کہ شائد انکی ملاقات کسی درد دل رکھنے والے اعجاز قریشی، طاہر رضا ہمدانی،بابر امان بابر،ثاقب علیم،طاہر انوار پاشا،علی عمار،شوکت جاوید،ڈاکٹر انعام الحق جاوید،میاں ظفر اقبال، ڈاکٹر نظام الدین،علی عمران اور الطاف ایزد خان جیسے شخص سے نہیں ہوئی ہوتی ورنہ خود کشی کرنے والے کبھی خود کشی نہ کرتے بلکہ وہ اپنی طاقت کو ان افراد کے زریعے ایسا استعمال کرتے جیسے آجکل وی سی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب کررہے ہیں صرف حوصلے،ہمت اور جرئات کی بات ہوتی ہے جو انہی جیسے خوبصورت انسانوں سے مل سکتی ہے اور ہماری منافقت دیکھیں ہم انہی لوگوں کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لیے مخلص ہوتے ہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی بھی بھلائی کررہے ہوتے ہیں ہم انہی کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ ہماری بھلائی کیوں کررہے ہیں آج ملک میں تعلیم کا نظام اتنا مہنگا اور مشکل ہے کہ غریب کا بچہ پڑھنے کا سوچ بھی لے تو حالات اسکے آڑے آجاتے ہیں

 

پرائیوٹ اداروں میں بچے کی ایک ماہ کی فیس میں انکے گھر کا راشن آجاتا ہے اگر وہ بچے کو اعلی تعلیم دلوانا چاہیں تو پھر انہیں خود کشی کرنا پڑتی ہے لیکن خوش قسمتی سے جنوبی پنجاب والوں کو حوصلے دینے والا ڈاکٹر اطہر جیسا باصلاحیت شخص ملا ہوا ہے جس نے نہ صرف بہاولپور والوں کے لیے علم کی شمع روشن کررکھی ہے بلکہ اب چانسلر اور گورنر پنجاب انجینئر بلیغ الرحمن کی بدولت اسلامیہ یونیورسٹی پورے پنجاب میں اپنے کیمپس بنانے جارہی ہے شائد اسی بات کا کسی نہ کسی کو دکھ اور رنج پہنچا ہوکہ اس یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں ایک بار پھر شروع کردی گئی ہیں بہاولپورسے تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیڈ راجکاں کے ساتھ ہی 36/DNB میرا گاؤں ہے جہاں بچپن کا کچھ حصہ گذرا ایک دن وہاں مذاق ہی مذاق میں چوہدری غلام رسول نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر اطہر محبوب کو یونیورسٹی کے دیوار سے کوئی لڑکا جھانکتا ہوا بھی نظر آئے تو وہ اسے فورا داخلہ دے دیتے ہیں بات آئی گئی ہوگئی ایک دن میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی

 

تو میں نے انہیں کہا کہ سر جی ہیڈ راجکاں سے یونیورسٹی پڑھنے کے لیے طلبہ آتے ہیں پلیز وہاں سے بس شروع کروادیں انہوں نے طلبہ کا نام سنا اور فورا اپنے ٹرانسپورٹ کے شعبہ کو حکم جاری کردیا کہ ہیڈ راجکان سے بس شروع کردیں آج وہاں کے سینکڑوں نہیں تو درجنوں طلبہ اور طالبات یونیورسٹی کی بس میں فخر سے آتے اور جاتے ہیں ورنہ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ کا جو حشر ہے اس پر لڑکیوں کا سفر کرنا وہ بھی اکیلے ناممکن ہے اوراکثر والدین اسی وجہ سے اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے دور رکھتے تھے یہ صرف ایک مثال ہے جسکا میں خود گواہ ہوں اسی طرح انہوں نے بے شمارچھوٹے چھوٹے کام کیے جو کسی کھاتہ میں ہی نہیں اگر انکے بڑے کارناموں پر جائیں توانہوں نے ایسے کام کردیے جو ملکی تاریخ میں آج تک کسی بھی یونیورسٹی میں نہیں ہوئے سب سے برا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے دروازے مزدور،کسان اور محنت کش کے لیے بھی ویسے ہی کھول دیے جیسے کسی سرمایہ دار کے لیے کھلے ہوتے ہیں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ہی انکا جرم بن گیا وہ خود تو سگریٹ تک نہیں پیتے اورالزام کیا سے کیا لگادیے گئے اچھے برے انسان ہر جگہ ہوتے ہیں بلکہ برے زیادہ ہیں اچھے لوگ کم ہیں اسلامیہ یونیورسٹی کو بدنامی سے دوچار کرنے والے مدعی پولیس والے ہیں کیا پولیس میں سب حاجی ثناء اللہ ہیں جتنا گند ہماری پولیس میں ہے شائد کسی اور محکمے میں نہیں

 

آج ملک بھر میں منشیات فروشی عام ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج جرائم بڑھتے جارہے ہیں تو اسکی وجہ پولیس ہے آج خواتین پر گھروں میں تشدد ہوتا ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج ملک میں لاقانونیت ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج حلال حرام کی تمیز ختم ہوچکی ہے تواسکی وجہ پولیس ہے مظلوم پر ظلم کی انتہا ہورہی ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج جہالت ننگا مجرا کررہی ہے تواسکی وجہ پولیس ہے آج ظالم طاقتور ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے تو اسکی وجہ پولیس ہے آج کرائے کے ٹٹو اور بھاڑے کے گواہ سرعام گھوم رہے ہیں تو اسکی وجہ پولیس ہے اور آج اگر خودکشیاں ہورہی ہیں تو اسکی وجہ پولیس ہے نہیں یقین تو ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمالیں تھانہ کسووال ساہیوال کا آخری تھانہ ہے وہاں کے سابق ایس ایچ او سب انسپکٹر عمر درازنے مبینہ طور پر دو من کے قریب چرس پکڑی قریبی پیٹرول پمپ پر ڈیل ہوئی لاکھوں روپے رشوت میں وصول کیے آدھی ڈرائیور پر ڈال کر اصل ملزم کو چھوڑ دیا جو عرصہ دراز سے اسی علاقہ میں منشیات فروشی کررہا ہے

 

دوسری مثال تھانہ نیو ٹاؤن راولپنڈی کے سب انسپکٹر خلیق کی بھی پڑھ لیں جو تھانے میں زمینی خدا بنا ہوا ہے سائل کو درخواست ہی واپس لینے کا حکم جاری کردیتا ہے تاکہ نہ درخواست ہو اور نہ ہی جرم ختم ہواگر ہماری پولیس ٹھیک ہوگئی تو ملک جنت کا ٹکڑا بن جائیگا ورنہ مرنے کے بعد والی جہنم کا تو اندازہ نہیں پولیس نے اس ملک کو ویسے ہی جہنم بنارکھا ہے جسکے گھر میں چاہیں بے دھڑک داخل ہومردوں کو تو چھوڑیں خواتین کو بے عزت کرنا فرض سمجھتے ہیں آج اگر پولیس والا کا ٹیسٹ کروایا جائے تو نہ جانے انکے خون میں سے کیا کیا نکل آئے رہی بات اسلامیہ یونیورسٹی کی اب وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا کیونکہ پنجاب کے محسن نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے اسکی انکوائری سیکریٹری معدنیات بابر امان بابر کے سپرد کردی ہے جو ایک بہادر باپ کا قابل فخر سپوت ہے ہمیں ایسے ہی چند اور لوگ مل جائیں توملک کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77138