Chitral Times

May 8, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بارشیں، ہم اور ہمارے کہانیاں – تحریر۔ صوفی محمد اسلم

Posted on
شیئر کریں:

بارشیں، ہم اور ہمارے کہانیاں

فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکں

فطرت کھبی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی

کہانی ہر تحریر کیلئے ضروری ہے ہر مصنف اسی تلاش میں رہتا ہے کہ ایک اچھی کہانی لکھنےکو  ملے۔ کہانی صرف بڑے لوگوں کی نہیں ہوتی ہے بلکہ غریب لوگوں کےروزمرہ زندگی ہی اک کہانی ہے، ہر گلی ہر گھر میں اک کہانی ہے،غریب کی غربت کی کہانی، بے بس کی افلاس کی کہانی، مجبور ماں باپ کی کہانی ہے اور معذور کی اوہ پکار کی کہانی ۔ ان غریب بستیوں کے کچے مکانات میں رہنے والوں کے پاس اپکے لکھنے کیلئے کہانیاں تو ہیں مگر انہیں دینے کیلئے آپ کے پاس بھی کچھ ہیں؟۔ انہیں دینے کیلئے اپکے پاس پیار کی کمی ہے، دیکھنے کیلئے وہ رویہ پیمائی نہیں ہے،ہم دردانہ ظرف نظر کی کمی ہے، تعاون کیلئے جذبات کی کمی ہے، تمہارے پاس احساسات کی کمی ہے، انکے آنکھوں میں سوالات کے تمہارے پاس جوابات کی کمی ہے اور انکے زخموں پر چھڑکنے والے وہ شبنم افشاں کی کمی ہے۔  اگر آپ کے پاس کچھ ہے تو لکھنے کیلئے ایک نہیں ہزاروں کہانیاں ہیں ۔
کھوت یعنی ہمارے بستی سطح سمندر سے کوئی 100000 فٹ بلندی پر واقع ایک کشادہ علاقہ ہے جہاں کوئی 1000 گھرانے آباد ہیں۔ یہاں گندم کی  بمشکل ایک ہی فصل ہوتی ہے جو لوگوں کا کل پیداوار ہے، حالیہ سال چودہ اگست کے بعد پورے علاقے میں مسلسل 15 دن تک بارش ہوتی رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب  گاؤں میں گندم کے فصل پک کر کٹائی کیلئے تیار ہوتی ہے، بارش کے دنوں میں “میں” گھر میں موجود نہیں تھا، جس جگہ میں “میں” تھا اس جگہ فصلوں  کی کٹائی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے مجھے بارش سے فصلوں کی تباہی کا اندازہ نہیں ہوا۔
ایک مہینے کے بعد جب گھر لوٹا تو طویل وقفے کے بعد فصل کی  کٹائی کے لئے لوگ تیار تھے مگر لوگوں کے آنکھوں میں وہ خوشی اور وہ جوش و جذبہ کوسوں دور تھی جو کھبی فصلوں کی کٹائی کے وقت انکے آنکھوں میں نظر اتی تھی، میں بھی اس مہم میں شامل ہونے کیلئے تیار ہوا ۔ جب کھیت پہنچا تو دیکھ کر دھنگ رہ گیا ۔ سارے پکے گندم پھر سےہرے بھرے ہوچکےتھے۔ مطلب یہ کہ فصل پک کر بارش کی وجہ دھب گئےتھے اور یہ مٹی سے مس ہونے کی وجہ سے   دبارہ اگ  کر سرسبز ہوگئے تھے۔ یہ سارا فصل گندم کم اور  کھاس بوس زیادہ لگ رہے تھے۔  ہمیں اسے ایسے ہی کاٹنا پڑا ۔ ایک درانتی مار کر اٹھنا اور گھسیٹ کر الگ کرتے جارہے تھے جیسے ہم جانور کے کھال اپاڑ رہے ہیں ۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ تیار فصل تباہ ہوا ،گندم کا ہر دانہ دبارہ اگنے کے لئے تیار تھے۔ جب پوچھا کہ کیا یہ گندم بعد میں استعمال کےقابل بنایا جاسکتا ہے ۔ بتایا گیا کہ یہ فصل ختم ہو چکا ہے انکے رنگت و ذائقہ بدل چکا ہے ،نہ یہ انسان کے اور نہ جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کے قابل ہے۔
آج 19 اکتوبر ہے یہ سوچا کہ کسی بہانے ان غریبوں کے گھر جاوں تاکہ ان کے حال معلوم کر سکوں۔ خیر بہانہ تو مل ہی جاتے ہیں، بائیک پر سوار ہوا اور اس بستی میں جا پہنچا جہاں سیلاب بھی آیا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہاں تو سرکاری اور نجی اداروں کے نمائندے ہر روز آتے ہیں بلکہ ایک فرد دو تین دفعہ آئے ہیں۔ امداد کی امید دلاکر چلے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ لوگ بہت اگتا چکے ہیں بلکہ ناامیدی نے انہیں گھیر لیا ہے۔ ایک شخص یہ بھی کہا کہ آگے مت جاو ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ سے لڑپڑے۔ مجھ تو آگے ہر حال میں جانا تھا اس لئے گاوں میں داخل ہوا۔ میرے ساتھ جو دوست تھا اس سے سب واقف تھے۔ سب اسے جانتے تھے بلکہ امدادی سامان تقسیم اور فہرستیں مرتب کرنے میں انکا بھی کردار ہوتا ہے۔ جب اپنے دوست سے پوچھا کہ پہلے بھی یہاں ائے ہو تو اس نے بتایا دو تین دفعہ۔ کوئی سرکاری امداد انہیں ملی ہے اس نے بتایا شاید کچھ نہیں تو مجھے قوی اندازہ ہوا کہ میرے دوست کی وجہ سے میرے پٹائی ہونے والا ہے مگر لوگوں کے شرافت سے واقف تھا اس لئے ہمت نہیں ہارا۔
پہلے پہلے ہمیں دیکھ کر ہم سے دور جانے لگے۔ جب میں دو بندوں کے پاس جانے لگا تو وہ ہمیں دیکھ کر آپس میں باتیں کررہے تھے اب یہ بھی اگئے تماشائی بنے۔ خیر وہ میرے پہچان والے تھے، ان کے پاس گیا ، سلام دعا کے بعد چائے کیلئے پوچھا جو میں انکار کیا۔ اس نے بتانے لگا کہ یہ میرا گھر ہے جوکہ پھتروں کا ڈھیر بن گیا ہے۔ میرے گھر کے پانچ مویشی خانے، باتھ روم، چاردیواری، فصل، کھیت، پودے سب بارش اور سیلاب کے زد میں اگئے ہیں۔ دو مہینوں سے یہاں کام کررہا ہوں۔ سرکاری نمائندے یہاں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں آپکے گھر سلامت ہے، انکے نزدیک گھر سے مراد وہ کمرہ  جسے “ختان” کہتے ہیں جو ہمارا کیچن، بیڈ روم، بٹھک سب کچھ ہے، انکے نزدیک اس کے علاوہ یہ سب گھر میں شامل نہیں ۔ مطلب میں جزوی طور پر متاثر ہوں۔ اب آپ بتائیں یہ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ مجھے لاکھوں کا نقصان ہوا ہے۔ میں مزدور بندہ ہوں، مزدوری کیلئے جانا ،بال بچوں کو پالنا ہے مگر میں یہاں تین مہینوں سے پھنسا ہوں ۔ سردی کا موسم آنے والا ہے خوراک کا بندبست کرنا ہے۔ ہر روز سروے ہو رہا ہے ہم سے پوچھتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔ تین مہینے گزر گئے امداد تو دور کی بات انکے سروے ختم نہیں ہو رہی ہے۔ الٹا ہمیں احساس کمتری اور بے بسی کا احساس دلا کر چلے جاتے ہیں۔ اس وقت سارے گاؤں والے ہمارے اردگرد جمع ہو گئے تھے سب بس یہی رونا رو رہے تھے کہ خدا کیلئے ہمارے حالات پر رحم کرو، ہمارے فصل ،ہمارے جانوروں کیلئے سارے ختم ہوگئے، گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہیں۔ سردی انے والی ہے، مزدوری کیلئے جانا تھا مگر ہم یہاں خستہ حال گھروں کی مرمت میں لگے ہیں۔یہ سب سن کر کسی اور سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوا سیدھا گھر چلا ایا۔
غربت کے چکی میں پسنے والے سے پوچھ لے کہ درد افلاس کیا ہے۔ خوف تب محسوس ہوگی جب رات کے کھانے کیلئے کچھ نہ ہو، بچوں کے آنکھوں سے بھوک شدد سے محسوس ہو رہے ہو، مگر آپکے پاس انہیں دینے کیلئے دلاسے کے سوا کچھ نہ ہو، جب بوسیدہ گھر کے چھت کی مرمت کے اپکے مغزور بدن میں طاقت نہ ہو اور آسمان پر برف باری کے گھٹائیں چھانے لگے،مزدوری کے سارے دروازے بند ہونے لگے، سردی سے بچے بلبلانے لگے اور گھر میں جلانے کیلئے لکڑیاں نہ ہو، جب دن بھر در در کے ٹھوکریں کھاکر جب دروزے پر پہنچے تو گھر کے اندر بچوں کے ماں انہیں تسلی دیرہی ہو کہ پاپا اب ائے گا اور کھانا لائے گا، اپ دروازے پر یہ سب سن رہے ہو اور اپکے جیب خالی ہو۔ اپ کو بطور ماں خوف تب محسوس ہوگا جب اپکے شوہر بچوں کے سونے کے انتظار میں صحن میں خالی ہاتھ اور آنکھوں میں آنسو لئے بچوں کے سونے کے انتظار میں کھڑے ملے۔
اس کے باوجود آسمان تب آپ پر گرے گا جب تین ماہ سیلاب اور بارشوں کی مصیبت میں گزانے کے باوجود آنکھیں امداد کیلئے ترس رہے ہو اور کوئی اپکو خبر دے کہ امدادی ٹیم آپکے گھر میں آئے ہیں، آپ لاٹھی گھسیٹ کر دوڑ رہے ہو اس خوف سے کہ وہ ٹیم کہی تجھے امداد دیے بغیر نہ چلی جائے، سانسیں پھول کر جب وہاں پہنچے اور ٹیم ممبر آپ سے مخاطب ہو کر کہے کہ آپ کے گھر کا چھت سلامت ہے لہذا اپکے نام ہم بطور ہم دردی جزوی نقصان میں لکھتے ہیں، جب بھی امداد آئے گا اپکو اطلاع دیا جائیگا،یہ وہ جملہ ہے جو آپ پچھلے تین مہینوں سے ہر دن سن رہے ہو، آپکے بچے اور بیوی دروازے پر کھڑے اس امید کے ساتھ دیکھ رہے ہو کہ اب صاحب جیب سے کچھ نکال کر اپکو دیگا، مگر وہ اپنے پروٹوکول کے ساتھ پراڈو گاڑی میں سوار ہوتے ہیں  اور خدا خافظ کہ کر چلےجائے۔ اور آپ آنسو لیے کھڑے ہو اور ساتھ ہی کوئی شخص صاحب تحریر کی طرح اپنی کہانی کی تلاش میں آپ کی طرف ارہا ہو۔تب احساس ہوگا کہ غربت ،افلاس اور بے بسی کی چکی کس رخ چلتی ہے اور کتنی شدد کے ساتھ اپکو پیس رہی ہے۔
وماعلینا الاالبلاغ
تحریر۔ صوفی محمد اسلم

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
67184