Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نیا پاکستان میں کچھ نیا ہو…….. تحریر: اے۔ایم۔خان

Posted on
شیئر کریں:

سال 2012ء کو انٹرویو کی تیاری کیلئے پشاورصدر میں مجھے چند دن ماہ جنوری اور فروری میں گزارنے کا موقع ملا۔ معمول کے مطابق، روزانہ صبح کے وقت ہوٹل سے اخبار لینے کیلئے نیوز اسٹال جاتا اور اخبار لے کر وہاں سے واپس ناشتے کیلئے آجاتا تھا۔ میں تقریباً ایک ماہ سےزیادہ عرصہ پشاور کے صدر بازار میں گزاردی جس میں بہت سے چیزوں اور لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔
اِن دِنوں اکثردیکھنے میں آیا، چھوٹے بچے ملتے اُن کے پاس بھیجنے کیلئے چیونگم ہوتے تھے یا اور کوئی چیز۔ بعض بچے جوتے پالش کرنے کا مطالبہ کرتے ،اور چند بچے بھیک بھی مانگتے تھے۔
اب بازار میں جو بھی مانگنے والا ہوتا ہے یہ تعیں کرنا سب سے بڑا مسلہ ہوتا ہے کہ وہ جو اللہ کے نام پر کچھ مانگنے والا واقعی حقدارہے کہ نہیں؟ پاکستان کے کسی بھی گلی کوچے میں مانگنے والا وہ فرد اُن 4 کروڑ لوگون میں شامل تو نہیں جو رات کو کھانا کھائے بغیر سو جاتا ہے۔ اوریہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جس بچے کو آپ بھیک نہ دیا ہو اور وہ اُن 140 بچون میں شامل تو نہیں تھا جو بھوک کی وجہ سےمر جاتے ہیں!
صدر بازارکا مین چوک جس میں ایک معذور عورت اور ایک لڑکا روزانہ بھیک مانگنے والوں میں ہوتے تھے اور شام کے وقت اُن کو کوئی لے جاتے تھے اُنہیں کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ کل ، منگل کے دن، میرا انٹرویو ہونے والا تھا ،شام کے کھانے کے بعد صدر روڈ سے پار ہوٹل میں چائے پینے کیلئے چلاگیا۔ اُس دن ،گوکہ میری سوچ اور خیال کل والے انٹرویو پرفوکس تھی، ایک دلچسپ واقعہ دیکھنے کو ملا۔ صدربازار میں بھیک مانگنے والا وہ لڑکا ساتھ ہوٹل کی طرف آیا ۔ وہ چل نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس کے جسم کا نچلا حصہ مکمل طور پر ناکارہ تھی۔ جیسے میرے پاس سے گزرا، کل میرا انٹرویو تھا، تومیں نے اللہ کے نام پراُسے کچھ دے دی۔ اب میں اُسے دیکھ رہا تھا ،کہ اب وہ کہان جا رہاہےاور کیا کرے گی ۔ ساتھ کھانےکے ہوٹل کےسامنےکرسی میں نہیں بیٹھا اور بہت مشکل سے چارپائی میں جاکر بیٹھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہ شاید اِسے ہوٹل والا کچھ روکھا سوکھا کھلا دے یا یہ خود معمولی سا کچھ منگوا لے گی۔ بہرحال ہوٹل کا ویٹر اُس کے پاس آیا اور اُس نے اُسے کچھ کہہ دی۔ اُسکی حالت دیکھ کر مجھے بہت ترس آئی اور شکُر بھی ادا کر دی۔ چارپائی میں خود کو سنبھالنے کے بعد اُس بھیکاری اپنے اُن گندہ کپڑون اور کوٹ کے پوکٹس سے روپے نکالنا شروغ کیا تو میں محو ہوکر اُسے دیکھتا رہا۔ اُس نے ایک پوکٹس سے سو روپے کا ایک دستہ نکالا،دوسرے سے پچاس روپے کا، بیس روپے اور دس روپےکے نوٹس اتنے زیادہ تھے اُس کے سامنے خالی جہگے میں بھر گئے۔ لوہے کے سکے بے حساب تھے جسے ایک کپڑے کے تھیلے میں ڈال دی۔ سچ بتا رہا ہوں میں نے جو اُسے اللہ کے نام پر دی تھی اِس پر بھی ایک بار سوچا۔
بہرحال اتنے میں ویٹر اُس کا کھانا لے آیا۔ اُس نے مچھلی آرڈر کیا تھا۔ کھانا کھانے کے چند منٹ بعد ایک مہران کار آگئی وہ رینگتا ہوا ادھر چلا گیا ۔ نوجوان سا ایک لڑکا ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اُترا ،اور فرنٹ سیٹ سے ایک عورت ،دونون نے اُسے پکڑ کر گاڑی کے پیچھے سیٹ میں نکال دی اور ساتھ چلے گئے۔
اب ایک بات مجھے سمجھ آگئی تھی کہ جو اللہ کے نام پر مانگنے کا حقدار ہے ، اُسے لوگ بھی اللہ کے نام پر دیتے ہیں جو کچھ اُسے ملتا ہے وہ اپنے ضروریات پر خرچ کرتی ہے یا نہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اُس کے گھر والے اُسکی معذوری سے فائدہ اُٹھاکر گھر کا پورا خرچہ اور ذاتی شاہ خرچی اُس کی بھیگ سے بٹورتی ہیں یا یہ کوئی نیٹ ورک کا کارندہ ہےجسے ایک مافیا استعمال کرتی ہے؟ اور یہ اب قوی ہے کہ معذور بھیکاری بھی پیشہ ور بھیکاری کا حلیہ بن چُکی ہے۔ جو شخص غریب کو کھانا کھلانا چاہتا ہے اور ضرورت مند کو خیرات یا اللہ کے نام پر کچھ دینا چاہتا ہے اُسے یہ پتا نہیں چلتا کہ کون خیرات کا حقدار ہے اور کون پیشہ ورہے، اور کسطرح ضرورت مند کا شناس ہو سکے؟
ملک میں بھوکا مرجانے کا ایک وجہ یہ بھی ہے جس میں حقدارمدد کی اپیل کرتا ہے وہ بھی لوگوں کو مصنوعی حیلے میں نظر آجاتا ہے اور اُس پر بھروسہ نہیں ہوتا اور وہ بھوکا سو جاتا ہے۔
ریاست پاکستان میں 24.3فیصد لوگ غربت کی لکیر سے پست زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق ملک میں 10 افراد میں 6 لوگ خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ ہیں۔
ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان کے لوگ خدمت خلق اور غریب کی بہبود پر سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ضرورت مند اور غریب کے فلاح وبہبود پر افراد اور ادارے عطیات اور رقم جمع کرتے ہیں اور سب سے زیادہ پیشہ ور بھیکاریوں (کا مافیا) کا نیٹ ورک جمع کرتی ہے جو اُن چند لوگوں کے پاس جاتی ہے جو معذور ولاچار کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
نئا پاکستان ہاوسنگ سکیم اور ملک میں غریب طبقے کیلئے مستقل بنیادون پر کام کرنے کو ، پہلے اور حالیہ آنے والے بیانات اور اعلانات کے مطابق ، موجودہ حکومت اپنا اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اگر حکومت ملک میں غریب اور ضرورت مند کو رہنے کیلئے گھر اور کھانے کیلئے خوراک کا بندوبست کرتی ہے تو یہ ملک میں بہت بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اور اِسے فلاحی کامون میں سب سے اہم کام تصور کیا جائے گا۔ غریب اور نادار کے نام پر جو لوگ اور ادارے ایک بڑی رقم جمع کرتے ہیں، اورجولوگ معذور افراد کو بھیگ مانگنے کیلئے اپنے نیٹ ورک میں استعمال کرتے ہیں اور رقم جمع کرتے ہیں ،حکومت صرف یہ رقم ہی جمع کرتی ہے، توصرف اِسی رقم سے ہی ایک بڑی تعداد کو کھلایا اور پلایا جاسکتا ہے اور یہ بدترین کاروبار بھی بند ہوسکتا ہے۔
حکومت دارالامان یا کسی اور اِدارے میں معذور افراد کو رکھ کر اُن کا علاج ،اور اُن کے کھانے پینے کا بندوبست کر سکتا ہے اوراُن کے ذریعے ہونے والے مافیا کا کاروبار اور نیٹ ورک ختم کر سکتا ہے۔
ریاست پاکستان میں چند ایسے اضلاع یا علاقےشامل ہیں جہان مقامی لوگ بھیک نہیں مانگتے، اِس میں ضلع چترال بھی شامل ہے۔اور اگریہاں کوئی ملتا ہے وہ پیشہ ور نہیں ہوتا ، آج مانگ لی اُسکی ضرورت ہوگئی تو چلا جاتا ہے۔ گرمیون اوربہار کے موسم میں پیشہ ور بھیکاریون کےکئی ایک ٹولے چترال بازار اور گاون گاون پھرتے نظر آتے ہیں اور یہاں بھی اپنے حصے کا بٹور کر چلے جاتے ہیں۔ غریب اور معذور کے فلاح وبہبود کیلئے جو اقدامات ہو اُنہیں اِداراتی چھتری کے نیچے لایا جائےتو خاطرخواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
16159