Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پے در پے قدرتی آفات – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پے در پے قدرتی آفات – محمد شریف شکیب

سلسلہ ہندوکش کےدامن میں پھیلی وادی چترال ایک بار پھر قدرتی آفت کی زد میں آگئی۔طوفانی بارشوں کے بعد چترال کے ایک درجن مقامات پر ندی نالے بپھر گئے جس سے سو سے زیادہ مکانات تباہ اور ان کے ہزاروں مکین کھلے آسمان تلے آگئے۔میرا گرام یارخون، کوغذی، کاری، نیردیت، دنین، رمبور وادی کالاش تباہ کن سیلاب کی زد میں آگئے ہیں۔ ندی نالوں میں طغیانی سے دریائے چترال کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور دریا کنارے آباد لوگوں کے گھر،دکانیں، دفاتر، باغات اور فصلیں تباہ ہوگئیں شاہی قلعہ کے قریب چنار کےدیوہیکل درخت بھی خوفناک دریائی لہروں میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔متعدد مقامات پر سیلاب نےدریا پر بند باندھ دیئے اور متعدد مقامات پر چترال شندور روڈ زیر آب آگیا۔

 

پل بہہ جانے سے اپر چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ہولناک سیلاب کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔انتظامیہ کاکہنا ہے کہ مزید بارشوں اور سیلابوں کا خطرہ ابھی موجود ہے۔ صورتحال معمول پرآنے کے بعد نقصانات کا تحمینہ لگایا جائے گا۔ تاہم غیر سرکاری تخمینے کے مطابق عمارتوں، باغات ، فصلوں اور مویشیوںکی صورت میں نقصانات کا اب تک کا تخمینہ پچاس کروڑ سے ایک ارب روپےتک ہے۔ فوری طور پر ان لوگوں کو سرچھپانے کےلئے خیمےاور خوراک کی ضرورت ہے جن کا گھر بار سمیت سب کچھ سیلاب برد ہوچکا ہے۔ اوروہ بےگھر اور بے سروسامان ہوچکےہیں۔توقع ہےکہ وفاقی اور نگراں صوبائی حکومت آفت زدگان کی خبر لے گی۔ شاید قدرت انسانوں سے ناراض ہے اور چھوٹے پیمانے پر قدرتی آفات کے ذریعے انہیں راہ راست پر آنے کی وارننگ دے رہا ہے۔اگر ہم نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو کوئی بڑی آفت بھی نازل ہوسکتی ہے۔ہم من الحیث القوم اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی طور پر راہ راست سے بھٹک چکے ہیں۔

 

اللہ تعالی کی نعمتوں کاشکر بجا نہیں لاتے۔ حقوق العباد کویکسر بھلا چکےہیں۔ مادیت پرستی میں ساری حدیں پھلانگ چکے ہیں۔اس وجہ سے کبھی زلزلے، کبھی سیلاب، کبھی طوفان اور کبھی وبائوں کی شکل میں قہر نازل ہوتا ہے۔چترال دو پہاڑی سلسلوں کےدرمیان پھیلی ہوئی ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر پر محیط وادی ہے جو رقبے کے لحاظ سے صوبے کاسب سےبڑاضلع ہے۔ان دونوں پہاڑی سلسلوں کےدرمیان گلیشیئرز سے پھوٹنےوالا دریا بہتا ہے جو لاسپور، یارخون سے شروع ہوکر ارندو کے مقام پر افغانستان میں داخل ہوتا ہے راستےمیں سینکڑوں کی تعداد میں ندی نالے دریا میں گرتے ہیں۔

 

افغانستان کےعلاقے بریکوٹ سے ہوتے ہوئے یہی دریا ورسک کے قریب دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور یہاں اسےعرف عام میں دریائِے کابل کہا جاتا ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے کئی سالوں سے ماہرین خبردار کررہےہیںکہ چترال اورگلگت بلتستان کے گلیشیئرز حدت میں غیرمعمولی اضافےکی وجہ سےکسی بھی وقت پھٹ سکتےہیںتاہم حکومتی سطح پر اس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جس کا خمیازہ چترال، سوات، دیر اور گلگت بلتستان کےعلاوہ ہزارہ کے عوام کو جانی و مالی نقصان کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
76953