میرزا محمد غفران مرحوم کی تاریخ ” سوختہ”۔ – پروفیسر اسرار الدین۔
مختلف ملکوں (بشمول چترال)کی لوک روایات میں ایک مشہورخوبصورت پرندے کا ذکرآتا ہے۔جسے کھوار میں ققنوز اردو یافارسی میں ققنس یاققنوس اورانگریزی میں فیونکیس(pheonix)اور غالباًعربی میں بھی اسے ققنس کہتے ہیں۔اس کے بارے میں آتا ہے کہ بہت خوب صورت اور خوش آواز پرندہ ہے۔اسکی چونج میں تین سوساٹھ سوراخ ہوتے ہیں اور ہرسوراخ سے ایک راگ نکلتاہے۔اس کی عمرایک ہزار سال کی ہوتی ہے۔جب عمر کی مدت پوری ہوجاتی ہے تویہ پرندہ سوکھی لکڑیاں جمع کرکے ان پربیٹھتاہے اورمستی کے عالم میں گاتا اورپروں کو پھڑ پھراتاہے۔جب اس کی چونج سے دیپک راگ نکلتاہے تولکڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور ققنس اس میں جل کرراکھ ہوجاتاہے۔پھرخدا کی قدرت سے اس راکھ پرمینہ برستا ہے۔تواس میں سے خودبخودانڈا پیدا ہوجاتا ہے اورکچھ مدت کے بعد اس انڈے سے پھر ققنس پیدا ہوجاتاہے کسی نے اس پر یوں شعر لکھا ہے۔
بارش ہی اسے حیات دے گی۔۔
ققنس تو ابھی جلاہواہے
حال ہی میں میرزا محمدغفران مرحوم کے اصل تاریخ چترال کافارسی ترجمہ(جوان کے لائق وفائق پوتے محمد عرفان عرفان کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا)جب میرے سامنے آیا توبے ساختہ مجھے ققنس کاقصہ یاد آیا۔پتہ نہیں کیوں مجھے ان میں ایک لطیف مناسبت نظرآئی۔124سال پہلے ایک ادیب،شاعر اورمورخ نہایت مشکل حالات میں پہلی دفعہ عرق ریزی سے تحقیق کرکے تاریخ لکھتا ہے۔اس کے گردوپیش میں حاسدلوگوں کاہجوم ہے جوپہلے ہی اس کے لئے طرح طرح کے مشکلات کھڑے کرنے میں لگے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ ایک خط میں لکھتے ہیں۔”حاسدوں نے مجھ پرایسی نکتہ چینیا کیں،مجھ پربہتان اور افترا کے ایسے تیر چلائے کہ ہردن ایک نیاچھیرا میرے جگرمیں گھونپ دیتے تھے۔جس سے میرے دل میں صدگونہ پریشانیوں کانیادروازہ کھل جاتا تھا۔ایسے حالات میں میں نے یہ مسودہ مکمل کرلیا ہے۔” یہ پڑھ کرمجھے ایسا لگاکہ ققنس تواسی وقت کاجلاہواتھا لیکن بچ گیاتھاکیونکہ اس کے چونج میں راگ کی کئی نئی دھنیں لوگوں کے سامنے آنی تھی۔اس کتاب کامسودہ جب تیار ہوجاتاہے ان کواحساس ہوا ممکن ہے
کتاب کے بعض مضامین بادشاہ کی نازک طبیعت کوپسند نہ آئیں اس لئے حفظ ماتقدم کے طورپر بادشاہ کے حضور میں ان کا اظہار کرکے مسودہ ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور ان مضامین کی شمولیت کاجواز بھی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو مزاج خسروانہ پر شاق گزریں۔ ۔بہرحال کتاب چھپ کرآجاتی ہے۔لیکن اس دوران حاسدوں نے مزید اپنا کام کیا ہواتھا۔لیکن میرزا محمد غفران کواس کا اندازہ شاید نہیں تھا کہ حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں۔ایک مصنف کے لئے سب سے اہم دن وہ ہوتا ہے جب اس کی محنت کاثمر سامنے آجاتا ہے اور وہ توقع کرتا ہے کہ کسطرح ان کی پذیرائی ہوگی۔میرزا محمدغفران بھی یقینا” یہ توقع کررہے تھے کہ بادشاہ وقت اس کوشاباش دے گا۔انعامات سے نوازے گا لیکن یہ کیا !!بادشاہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہے ہیں ۔اور حکم صادر فرمارہے ہیں۔جلاو ان کتابوں کو مجھے نہیں چاہیئے ایسی تاریخ کی کتاب! چنانچہ کتاب کے نسخے جلادئیے گئے۔میرزا صاحب کے بیٹے غلام مصطفے(مرحوم) نے ان کی راکھ جمع کرکے رکھدی ہوگی اورآج 124سال بعد ان کے خلف رشیدمحمد عرفان عرفان اس انڈے کی حفاظت کرکے دوبارہ ققنس کوزندہ کرکے ہمیں آپ کو پیش کررہے ہیں جس کے لئے ہم اس کے شکرگذار ہیں۔یہ چند باتیں زیب داستان کے لئے کہی گئیں۔اب کچھ باتیں کتاب کے بارے۔
1۔ چترال کی پہلی تاریخ:
جدید پرائیے کے مطابق تحقیق کرکے مختلف اہم کتابوں کے حوالے سے چترال پریہ پہلی تاریخ کی کتاب ہے اگرچہ چترال کے مخصوص حالات کی وجہ سے کئی واقعات کے ماخذ تشنہ ہیں۔لیکن اس کے باوجود اس کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
2۔ چترال کا پہلا جغرافیہ:
اس کومیں چترال کے جغرافیہ کی پہلی کتاب کہوں گا۔اس زمانے کے حوالے سے چترال کا تفصیلی جغرافیہ اس میں پیش کیا گیا ہے۔علم جغرافیہ کی ایک شاخ ہے جسے ہسٹاریکل جیاگرافی(تاریخی جغرافیہ) کہتے ہیں۔اس مضمون میں کسی مقام کا جغرافیہ گذشتہ کسی گزشتہ زمانے کے حوالے سے لکھا جاتاہے۔چنانچہ اس کتاب میں اس وقت کے چترال کا جو جغرافیہ بیان ہوا ہے وہ ہمارے لئے ہسٹاریکل جغرافیائی معلومات کا ذریعہ ہیں۔
3۔ تاریخ اور جغرافیہ کے علاوہ اس کتاب میں چترال کے اہم قبیلوں،صوفیاء،علماء اور اہم شخصیات کے تذکرے ہیں۔چونکہ اس زمانے میں تاریخ کی کتابوں میں عام طورپر اس قسم کے مظامین کاتذکرہ کم ہوتا تھا۔اسلئے لگتا ہے کہ اسی سلسلے میں بادشاہ کواکسایاگیا ہوگاکیونکہ بادشاہوں کاخیال ہوتا تھا کہ تاریخ کامطلب بادشاہوں کی قصیدہ خوانی ہوتاہے اور اس تاریخ میں بادشاہ کے علاوہ دوسرو ں کا تذکرہ چہ معنی دارد۔
4۔ ترجمہ:
فارسی کارواج بدقسمتی سے چترال میں اب نہیں رہا۔محمدعرفان صاحب نے اس اہم کتاب کابہترین انداز میں اردو میں ترجمہ کرکے کمال کردیا ہے۔اس طرح ہمارے لوگوں کواس سے استفادہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔اور لوگوں کویہ احساس ہوجائے گاکہ اس زمانے میں بھی چترال میں اہم لکھنے والے موجود تھے۔نیز میرزا محمد غفران مرحوم کے کہنے کے مطابق لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ”چترال کی مملکت میں بھی صاحب علم وعزت والے لوگ موجود تھے۔کیونکہ بادشاہ بہ طور ایک فرد سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔اگر ان کی مملکت کے لوگوں کومحض جانوروں کاریوڑ (یا چارپائے)تصور کریں توان کے بادشاہ کی جلالت کاکیا حال ہوگا“مختصراً محمد عرفان عرفا ن مبارکباد کے لائق ہیں اور ہمارے شکریے کا بھی کہ انہوں نے اس کتاب کا خوبصورت ترجمہ کرکے ہمیں پیش کیا۔اس پرایک جامع مقدمہ بھی تحریر کیا جسمیں چترال میں تاریخ نویسی کے بعض اہم پہلوؤں پر سیر حاصل بحث بحث کی ہے۔
جمال بک ڈپو لاہور والے اپنی روایات کے مطابق بہترین انداز کتاب کی چھپائی کی اور اسے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کے بر سر عام آنے میں انجمن ترقی کھوار بالخصوص شہزادہ تنور الملک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس کے لئے وہ شکریے کے لا یق ہی۔

