Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مغرب کو لاحق اسلاموفوبیا کا مرض – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

مغرب کو لاحق اسلاموفوبیا کا مرض – محمد شریف شکیب

سویڈن میں ایک عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا کی جانب سے عیدالاضحی کے روز دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کے خلاف پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔شاتم قرآن عراقی نژاد شخص سلوان پانچ سال قبل تارکِ وطن کے طور پر پناہ لینے سویڈن آیا تھا۔وہ اپنے حوالے سے ملحد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سلوان مومیکا نے اچانک قرآن کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ انھوں نے اس ضمن میں کافی عرصہ قبل سویڈش حکام سے مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تین ماہ تک کیس چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ سویڈن کے آئین کے مطابق احتجاج کا حق بنیادی حق ہے۔سویڈن میں اس واقعے سے پہلے بھی کئی بار قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

 

رواں برس جنوری میں سٹرام کرس نامی ایک بنیاد پرست تنظیم کے احتجاجی مظاہرے میں قرآن کا نسخہ جلایاگیایہ گروپ امیگریشن مخالف اور اسلام مخالف کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس تنظیم کی قیادت راسموس پالوڈن نامی شخص کرتے ہیں۔2020 میں بھی سویڈن میں مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے مقدس کتاب کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا تھا جس پر عالم اسلام نے شدید احتجاج کیا تھا۔ سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار ناصرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے بلکہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیاں بھی اجیرن بن چکی ہیں اور ان کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔اگرچہ وزیراعظم وولف کرسٹرسن نے واقعے کی مذمت کی ہے تاہم ان کی جماعت سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت رہی ہے جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔

 

ان کا یہ موقف ہے کہ مسلم ممالک سے نقل مکانی کرکے سوئیڈن آنے والوں کو روکنے کے لئے قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونی چاہئے۔کیونکہ امیگریشن مخالف اسلام کے تیزی سے پھیلاو کو مغربی معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کے ایک گروپ نے فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ہے۔اس گروپ سے منسلک ایک محقق عبدالقادر این جی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ سوئیڈن کی آبادی کی بڑی تعدادکے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔2016 میں ایک اور سروے میں 57 فیصد لوگوں نے یہ رائے دی کہ سویڈن آنے والے مہاجرین قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور یہ بیانیہ بنیاد پرست دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔اسلامو فوبیا نہ صرف سویڈن میں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔

 

روس کی جانب سے جنگ مسلط کیے جانے کے بعد یوکرین سے نقل مکانی کر کے آنے والے شہریوں کا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والوں سے موازنہ کرتے ہوئےبتایا گیا ہے کہ یوکرینی مہاجرین ’شام کے پناہ گزین نہیں ہیں، وہ یوکرین کے پناہ گزین ہیں وہ عیسائی ہیں اور وہ سفید فام ہیں۔اس لئے وہ زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کے لیے نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ناصرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کو بھی جلانا چاہتے ہیں۔سویڈن میں کچھ لبرل مبصرین بھی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کو نفرت کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو سویڈن کے قانون کے مطابق ممنوع ہے۔

 

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے سویڈن کی امیدوں کو چھ ماہ کے دوران ایک اور دھچکا لگا ہے سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوجی غیر جانبداری کی اپنی دیرینہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے گذشتہ سال نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔رکنیت کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن ترکیہ اور ہنگری نے ابھی تک سویڈن کی درخواست کی حمایت نہیں کی ہے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوگان حکومت بارہا سویڈن کی حکومت پر کالعدم باغی گروہوں، کردستان ورکرز پارٹی اور دیگر ترک اپوزیشن گروپوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔انقرہ حکومت انھیں دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔ترکیہ کے صدر نے اشارہ دیا ہے کہ اُن کا ملک نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی منظوری دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگاسٹاک ہوم میں ہماری مقدس کتاب پر ہونے والے ’گھناؤنے حملے‘ نے ہم سب کو مشتعل کر دیا، دو ارب مسلمانوں کے جذبات کی بیحرمتی کو کسی بنیادی انسانی قدر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
76401