Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معجزہ رونما ہونے کی منتظرقوم ……….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

اگرچہ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتا۔ کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں لیکن پاکستان اور امریکہ کے موجودہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے چند لمحے کے لئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ناقابل واپسی موڑ پر آگئے ہیں۔امریکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف سترہ سالہ جنگ کے دوران دی گئی33ارب ڈالر کی امداد کا حساب مانگ رہا ہے اور پاکستان کوایران اور شمالی کوریا کے ساتھ واچ لسٹ میں شامل کیا ہے۔ تو دوسری طرف ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے اپنے وسائل سے لڑی ہے اور پندرہ سالوں میں پاکستان نے اس جنگ پر 120ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ حکمران جماعت کے سربراہ کی طرف سے اب تک امریکی صدر کے الزامات اور دھمکیوں کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات سے کافی پریشان ہے۔ وہ امت مسلمہ، عالم اسلام، مملکت پاکستان ، قومی سلامتی جیسے موضوعات پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں ، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف سے امریکہ مخالف جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کے علاوہ امریکی پرچم نذر آتش کرنے اور صیہونی قوتوں کو بددعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس پر 1857کی جنگ آزادی کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آیا۔ انگریزفوج کی طرف سے جلیانوالہ باغ میں اندھادھند فائرنگ اور کئی مسلمانوں کو شہید کرنے کے واقعے کے خلاف امرتسر میں خواجہ سراوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’ خدا کرے کہ انگریزوں کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘ہماری حالت بھی ان خواجہ سراوں سے کچھ مختلف نہیں۔ ہم صرف بددعا ہی دے سکتے ہیں۔ اگرچہ پرائی جنگ میں ہمارا امریکی امداد سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔ مگر یہ بات مناسب وقت پر ہم امریکہ کو باور نہیں کراسکے۔ کیونکہ خارجہ تعلقات استوار کرنے کے لئے کافی عرصے تک ہمیں کوئی موزوں شخصیت نہیں مل سکی۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ نامناسب وقت پر مناسب بات کہنا اور مناسب وقت پر نامناسب بات کہنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آج اگرچہ ہماری بات مناسب ہے لیکن وہ بات کرنے کے لئے موقع نامناسب ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری سچی بات کابھی کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ہماری قربانیاں خود ہمارے لئے طعنہ بن گئی ہیں۔یہودی لابی امریکہ کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا، فلسطین ، بوسنیا،کشمیر اور ایران کے بعد پاکستان کو دبانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ 60اسلامی ممالک میں سے ترکی کے سوا کسی کی جرات نہیں ۔ کہ عالم اسلام کے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے غیر مبہم اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ کو ایران اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے لیڈر شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانی یا پاکستان کو کسی امریکی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے سرکاری سطح پر امریکی صدر کے بیان کو ایک خود مختار جوہری صلاحیت رکھنے والے اسلامی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں سمجھا۔دوسری جانب خود امریکی حکومت اعلان کررہی ہے کہ پاکستان نے اب تک امریکہ کو دی جانے والی ٹرانزٹ سہولت واپس لی ہے نہ ہی افغانستان میں اتحادی افواج کو سامان اور اسلحہ کی فراہمی روک دی ہے۔انہیں شاید کسی نے بتا دیا ہے کہ پاکستانی قوم اس وقت اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کہیں مذہب، مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں تو کہیں علاقے، قومیت اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون بہایاجارہا ہے۔ اقتدارکی ہوس نے ہمارے لیڈروں کو اندھا کردیا ہے۔ انہیں ملک کو درپیش سنگین صورتحال کا کوئی ادراک نہیں۔ وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی، بہتان طرازی، گالم گلوچ اور نیچا دکھانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر دامن گیر ہے۔ اور دشمنوں کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ قوم اس امید پر جی رہی ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور کوئی غیرت مند ، باکردار اور مخلص قیادت سامنے آئے اور بھنور میں پھنسی قوم کی نیا کو پار لگادے۔ ہوسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت میں ایسا کوئی معجزہ رونما بھی ہوجائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
4200